واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں اسرائیل کو پاٹنر بنائے جانے اور ان کی وفد کی آمد کے خلاف احتجاج کررہے تھے، جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایکشن لیا جس پر طلبا نے شدید مخالفت کی۔
وہیں دوسری جانب یونیورسٹی کے طلباء گذشتہ چند دنوں سے ' جامعہ مینوئیل' کی خلاف ورزی کے معاملے میں جاری نوٹس کی مخالفت میں بھی احتجاج کررہے ہیں۔
تشدد کا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب طلبا وائس چانسلر ڈاکٹر نجمہ اخترکے آفس کے سامنے احتجاج کرنے پہنچے جہاں تعینات گارڈز کے ساتھ بحث و مباحثہ ہوا جس کے بعد آپسی نوک جھوک کی نوبت آگئی۔ طلبہ کی جانب سے انتظامیہ پر طاقت کے استعمال کا الزام لگایا گیا، جبکہ انتظامیہ نے ان تمام الزامات کوبے بنیاد قرار دیا۔
طلباء کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ' کچھ طلبا کے خلاف جاری نوٹس کے معاملہ میں جامعہ کے وی سی سے بات کرنے پہنچے مگر وائس چانسلر نے طلباء سے بات نہیں کی اور گارڈز اور باؤنسر بلا کر ہمیں وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ جہاں طلبا کے مابین جھڑپ ہوئی جس میں کچھ طلبا کو چوٹیں آئیں جنہیں ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ طلبا کے مطابق وہ نوٹس جاری کرنے کے خلاف گزشتہ 9 دنوں سے دھرنے پر تھے۔'
اس سلسلے میں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ' طلبہ کو جامعہ مینوئیل کی خلاف ورزی کے معاملہ میں نوٹس بھیجا گیا تھا۔ جس میں انہیں جواب دینے کوکہا گیا، لیکن انہوں نے جواب دینے کی بجائے نوٹس کی کاپی جلا دی اور ڈسپلنری کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا۔ گزشتہ دودنوں سے طلبہ اور جامعہ انتظامیہ کے درمیان کئی میٹنگ ہوئی۔ جس میں احتجاج کر رہے طلبا کو کہا گیا تھا کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں، اس کے باوجود طلبا نے وی سی دفتر کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی اور دفترمیں آمد و رفت کو روک دیا۔ اسی درمیان طلبہ آپس میں لڑنے لگے، گارڈز نے بیچ بچاؤ کیا۔'