ETV Bharat / city

گلفشاں کے خلاف لگا یو اے پی اے تو اپنوں نے بھی توڑا رشتہ

author img

By

Published : Sep 19, 2021, 3:57 AM IST

دہلی تشدد کے معاملے میں یو پی اے کے تحت جیل میں بند گلفشاں فاطمہ کے قریبی رشتہ دار یہاں تک کی ان کے والدین نے بھی فاطمہ سے کوئی تعلق نہیں ہونے کو لیکر جعفرآباد پولیس اسٹیشن میں حلف نامہ جمعہ کر دیا ہے۔

gulfisha fatima relatives submitted affidavit for not having relation with her
گلفشاں کے خلاف لگا یو اے پی اے تو اپنوں نے بھی توڑا رشتہ

دہلی تشدد میں گرفتار گلفشاں فاطمہ کا اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ دہلی تشدد میں نام آنے کے بعد گلفشاں فاطمہ کے قریبی رشتے داروں نے فاطمہ سے کوئی تعلق نہیں ہونے کو لیکر جعفرآباد پولیس اسٹیشن میں حلف نامہ جمع کیا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ذرائع کی مانیں تو گلفشاں فاطمہ کے والدین نے بھی پولیس کو فاطمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنے کی بات کہی ہے۔ جسے پولیس افسران تو صحیح بتاتے ہیں، لیکن ای ٹی وی بھارت نے بھی اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ جب ای ٹی وی بھارت کی ٹیم فاطمہ کے جعفر آباد تھانہ کے تحت چوہان باگڑ علاقے کے گھر میں پہنچی تو فاطمہ کے والدین گھر میں نہیں ملے۔

گھر کے کچھ افراد گھر میں ضرور موجود تھے، لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کا اتنا ضرور کہنا ہے کہ انہیں بھارت کے عدالتی نظام پر یقین ہے۔ فی الحال فاطمہ سے ان کا کسی طریقے سے تعلق نہیں ہے۔

بتا دیں کہ فاطمہ کے والد اپنے بھائی کے ساتھ گھر میں گروسری کی دکان چلاتے ہیں۔ فاطمہ کے دو بھائی ہیں، وہ گھر میں سب سے بڑی ہے۔

دہلی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد، فاطمہ نے غازی آباد کالج سے ایم بی اے کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فاطمہ کو پولیس نے 11 اپریل کو گرفتار کیا تھا اور وہ اس وقت سے عدالتی تحویل میں ہے۔

دہلی تشدد معاملے میں جیل میں بند گلفشاں فاطمہ نے اپنی ضمانت عرضی پر کڑکڑڈوما کورٹ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ یو اے پی اے جیسے سخت قانون میں تکنیکی غلطیوں کی بنیاد پر عرضی خارج نہیں کی جانی چاہیئے۔

16 ستمبر کو گلفشاں فاطمہ کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران فاطمہ کی طرف سے ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے یہ دلیل کڑکڑڈوما کورٹ کے سامنے یہ دلیل پیش کی تھی۔ محمود پراچہ نے عدالت کو بتایا کہ این آئی اے ایکٹ کے سیکشن 16 (3) کے تحت خصوصی عدالت کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 437 اور 439 دونوں کے تحت سماعت کا حق حاصل ہے۔

دراصل، سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے کہا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 439 کے تحت دائر کی گئی درخواست قابل سماعت نہیں ہے اور ضمانت کی درخواست سیکشن 437 کے تحت داخل کی جانی چاہیئے۔

مزید پڑھیں:

یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت ضمانت کی درخواست تکنیکی غلطی پر خارج نہیں ہو: گلفشاں فاطمہ

تب پراچہ نے کہا کہ اس کیس میں چارج شیٹ ایک سیشن کورٹ کے بطور داخل کی گئی ہے ناکہ اسپیشل کورٹ کی طرح۔ اس لیے استغاثہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیکشن 439 کے تحت ضمانت کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

دہلی تشدد میں گرفتار گلفشاں فاطمہ کا اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ دہلی تشدد میں نام آنے کے بعد گلفشاں فاطمہ کے قریبی رشتے داروں نے فاطمہ سے کوئی تعلق نہیں ہونے کو لیکر جعفرآباد پولیس اسٹیشن میں حلف نامہ جمع کیا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ذرائع کی مانیں تو گلفشاں فاطمہ کے والدین نے بھی پولیس کو فاطمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنے کی بات کہی ہے۔ جسے پولیس افسران تو صحیح بتاتے ہیں، لیکن ای ٹی وی بھارت نے بھی اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ جب ای ٹی وی بھارت کی ٹیم فاطمہ کے جعفر آباد تھانہ کے تحت چوہان باگڑ علاقے کے گھر میں پہنچی تو فاطمہ کے والدین گھر میں نہیں ملے۔

گھر کے کچھ افراد گھر میں ضرور موجود تھے، لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کا اتنا ضرور کہنا ہے کہ انہیں بھارت کے عدالتی نظام پر یقین ہے۔ فی الحال فاطمہ سے ان کا کسی طریقے سے تعلق نہیں ہے۔

بتا دیں کہ فاطمہ کے والد اپنے بھائی کے ساتھ گھر میں گروسری کی دکان چلاتے ہیں۔ فاطمہ کے دو بھائی ہیں، وہ گھر میں سب سے بڑی ہے۔

دہلی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد، فاطمہ نے غازی آباد کالج سے ایم بی اے کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فاطمہ کو پولیس نے 11 اپریل کو گرفتار کیا تھا اور وہ اس وقت سے عدالتی تحویل میں ہے۔

دہلی تشدد معاملے میں جیل میں بند گلفشاں فاطمہ نے اپنی ضمانت عرضی پر کڑکڑڈوما کورٹ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ یو اے پی اے جیسے سخت قانون میں تکنیکی غلطیوں کی بنیاد پر عرضی خارج نہیں کی جانی چاہیئے۔

16 ستمبر کو گلفشاں فاطمہ کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران فاطمہ کی طرف سے ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے یہ دلیل کڑکڑڈوما کورٹ کے سامنے یہ دلیل پیش کی تھی۔ محمود پراچہ نے عدالت کو بتایا کہ این آئی اے ایکٹ کے سیکشن 16 (3) کے تحت خصوصی عدالت کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 437 اور 439 دونوں کے تحت سماعت کا حق حاصل ہے۔

دراصل، سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے کہا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 439 کے تحت دائر کی گئی درخواست قابل سماعت نہیں ہے اور ضمانت کی درخواست سیکشن 437 کے تحت داخل کی جانی چاہیئے۔

مزید پڑھیں:

یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت ضمانت کی درخواست تکنیکی غلطی پر خارج نہیں ہو: گلفشاں فاطمہ

تب پراچہ نے کہا کہ اس کیس میں چارج شیٹ ایک سیشن کورٹ کے بطور داخل کی گئی ہے ناکہ اسپیشل کورٹ کی طرح۔ اس لیے استغاثہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیکشن 439 کے تحت ضمانت کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.