اس موقعے پر کچھ نوجوانوں نے کہا کہ' لاک ڈاؤن نے انہیں دہلی سے اس قدر بدظن کردیا ہے کہ اب وہ دوبارہ دہلی کبھی آنے کے بارے میں بھی نہیں سوچیں گے'۔
ایک نوجوان نے کہا کہ' حکومت نے لاک ڈاؤن کرنے میں عجلت سے کام لیا۔ کسی کو کوئی موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے لیے دو قت کی روٹی کا انتظام کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ' موم بتی اور تالی بجانے کے لیے تو دو دن کا وقت مل جاتا ہے لیکن لاک ڈاؤن سے قبل ہمیں اپنی دوقت کی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے صرف چار گھنٹے ملتے ہیں'۔
بہر کیف ملک گیر سطح پر جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان ہو کر مزدور اب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ حکومتوں کی جانب سے انہیں روکنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن مزدوروں کا کہنا ہے کہ انہیں بڑے شہروں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میر تقی میر کا یہ شعر مزدوروں کی موجودہ حالت پر صادق آتا ہے۔
دہلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں لوگ منتخب روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
چند ماہ پہلے دارالحکومت دہلی میں لوگ روزگار کی تلاش میں آتے تھے لیکن کورونا وائرس کی وباء نے اسے ویران کر دیا ہے۔ مزدوروں کی مانیں تو وہ اب دہلی واپسی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دہلی میں گذشتہ 50 روز سے جاری لاک ڈاؤن یومیہ مزدوروں پر پہاڑ بن کر گزرا۔ بہار سے دہلی معاش کی تلاش کے لیے آئے مزدور اب کسی بھی طرح اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں نہیں معلوم کہ اگر وہ دہلی میں رہتے ہیں تو لاک ڈاؤن ختم ہونے سے پہلے وہ بھوک کی شدت سے زندہ رہ پائیں گے یا نہیں۔