ملک کے دارالحکومت دہلی میں منعقد مذاکرے کی صدارت سابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر خالد محمود نے کی مہمان خصوصی کے طور پر آیت اللہ سید عقیل الغروی موجود رہے جبکہ مذاکرے کا اختتام مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے کیا۔
مقررین میں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد پروفیسر احمد محفوظ نے کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے۔
اس موقع پر غالب اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے خیرمقدم کلمات پیش کیے جاوید مشیری نے سلام پیش کیا جبکہ مشہور شاعر معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دیے ۔
آیت اللہ سید عقیل الغروی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لئیق رضوی نے پچیس برسوں کی محنت کے بعد ایک کتاب تالیف کی ہے یہ کتاب آپ کی محنت و مشقت کا خلاصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس موضوع کو پروجیکٹ بنا کر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تمام اصناف سخن اپنے انداز سے تربیت کرتے ہے لیکن مرثیہ آپ کو شک القلب بننے سے روک لیتا ہے۔ عوامی مرثیے میں غریب نادار اور نا آسودہ حضرات کی برجستہ جذبات ملتے ہیں ۔
پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ مرثیہ کی روایت کو لئیق رضوی نے جلا بخشی ہے عوامی مرثیہ کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ مرثیہ ہمارے شعور کا نہیں بلکہ لاشعور کا حصہ ہے اس کتاب کے خاص بات یہ ہے کہ اس میں شمالی ہند سمیت مختلف ریاستوں کی بھی روایات موجود ہیں۔
پروفیسر خالد محمود نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ موضوع میری دلچسپی کا ہے اس کتاب میں لئیق رضوی نے جو محنت کی ہے یہ اہمیت کی حامل ہے اس کتاب کے جذبات کو محسوس کرنا چاہیے جنہیں بنیادی طور پر عوام کی شاعری نہیں بلکہ جذبات کی شاعری ہے۔
پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ میں لئیق رضوی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرنا چاہیے عوامی اظہارات کے مختلف طریقے ہیں عوامی مرثیوں میں جو سچائی نظر آتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی انیس اور دبیر مرثیہ کے شاعر ہیں اور اردو میں جو بڑے پانچ عظیم شاعر ہیں ان میں سے ایک انیس ہے۔