ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں جب لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے 21 برس کیے جانے پر سوال پوچھا گیا تو بھوپال کی مقامی خاتون اسمتا جوسف نے کہا کہ حکومت کا لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھانے کا فیصلہ ایک طرح سے اچھا ہے، کیونکہ اس سے کم عمر میں ہونے والی شادیوں میں زچگی کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہے، اگر ہم اسے اس طرح سے دیکھے تو اچھا ہے اور وہیں اگر حکومت ان سب سے ہٹ کر اگر خواتین کے لیے بیداری مہم چلائے جس میں سب سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم پر کام ہونا ضروری ہے۔
سماجی کارکن رائیسہ ملک نے کہا کہ مرکزی حکومت کوئی بھی کام پہلے کرتی ہے اور بتاتی بعد میں ہے، انہوں نے کہا کہ اگر حکومت لڑکیوں کی عمر 21 سال کرتی ہے تو ان لڑکیوں کو بہت فائدہ ہوگا جو آگے پڑھ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں، چاہے پھر کوئی بھی میدان ہو وہ 21 سال کی عمر تک اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، لیکن وہیں اس سماج کا دوسرا پہلو ہے جو غریب ہیں اور وہ اپنے بچوں کی پرورش صحیح طریقے سے نہیں کر پاتے ہیں جس میں خاص طور سے تعلیم نہیں دے پاتے ہیں کیونکہ ان کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں اور وہ اپنی لڑکیوں کی جلد شادی کر دیتے ہیں، جس میں مسلم طبقہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 18 سال کی عمر میں ووٹ ڈالا جا سکتا ہے تو شادی کی عمر 21 سال کیوں کی جارہی ہے اور وہیں آج کا دور جدید دور ہے جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہے جس میں بچہ 15 سال کی عمر میں ہی سب کچھ سمجھنے لگتا ہے اس میں اچھی خاصی صلاحیت آ جاتی ہے، اس لیے شادی کی 18 سال عمر ٹھیک ہے، رائیسہ ملک کا کہنا ہے جن کے پاس ایسا ہے ان کے لیے یہ ٹھیک ثابت ہوگا اور جن کے پاس پیسہ نہیں ہے ان کے سامنے پریشانی کھڑی ہو سکتی ہے۔