محکمہ اقلیتی بہبود کرناٹک مائناریٹی ڈیویلوپمینٹ کارپوریشن کی جانب سے 'اریوو' اسکیم جاری کی گئی، جس کے تحت اقلیتی طلبا کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کے ایم ڈی سی سے قرض جاری کیا جاتا ہے جو تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد طلباء کو لوٹانا ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں سماجی کارکن وزیر بیگ کہتے ہیں کہ کے ایم ڈی سی کے افسران مستحق طلباء کی عرضیوں کی جانچ کے لئے ایک برس سے زیادہ عرصہ لگا دیتے ہیں جس سے طلباء و والدین کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور طلباء وقت پر اپنی فیس نہیں جمع کر پا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے کالجوں میں ان کو امتحانات میں حصہ لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔
وزیر بیگ کا مزید کہنا ہے کہ ایسے طلبہ کو اپنے کالجوں میں اپنے ساتھیوں کے سامنے بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان طلباء کی اپنے اسباق سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وزیر بیگ کے ایم ڈی سی کے ملازمین کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے دفاتر میں ریٹائرڈ کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں کی بھرمار ہے جو کہ زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے وقت گزاری کرتے رہتے ہیں۔
محکمہ اقلیتی بہبود میں کرپشن
اسی برس ماہ فروری میں محکمہ اقلیتی بہبود کرناٹک مائناریٹی ڈیویلوپمینٹ کارپوریشن میں ایک بڑا بدعنوانی کا معاملہ پیش آیا ہے جس کی شکایت شہر کے آر ٹی نگر پولیس اسٹیشن میں درج ہے اور اس شکایت کو درج کرنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر خود ہیں۔ اس شکایت پر بنگلورو نارتھ ضلع آفس کے ایم ڈی سی کے کئی کارندے جو کنٹریکٹ پر کام کر رہے تھے جنہیں جیل بھیجا گیا تھا۔
دراصل 'اریوو' اسکیم کے لون کی رقم طلباء جہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہاں کے بینک کے کھاتوں میں جمع کی جاتی ہے اور کے ایم ڈی سی کے صدر دفتر سے 'آر ٹی جی ایس' کے ذریعے آن لائن روانہ کی جاتی ہے۔
سماجی کارکن وزیر بیگ اس بدعنوانی کے متعلق کہتے ہیں کہ کے ایم ڈی سی کے چند ملازمین نے کالج کے کھاتوں کے بجائے وہ رقم اپنے ہی بنائے ہوئے فرضی کھاتوں میں جمع کروا لیا اور اس طرح کے کام کے ایم ڈی سی کے صدر دفتر کے بڑے افسران کی مدد کے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ سراسر فراڈ اور دھوکہ دہی ہے۔ اس فراڈ کا اثر طلباء پر اتنا ہوا ہے کہ کئی طلباء رواں برس اپنے امتحان میں حصہ لینے سے قاصر رہ گئے۔
وزیر بیگ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کے ایم ڈی سی کے صدر دفتر نے طلباء کے لئے گزشتہ برس کے اپلیکیشن اب جاری کئے گئے ہیں۔ پوچھے جانے پر پتہ چلا کہ گزشتہ برس کے 'اریوو' اسکیم کے تمام طلباء کے فائلیں کہیں گم ہو گئں ہیں۔
اس بدعنوانی کیس کی تازہ ترین اسٹیٹس
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے آر ٹی نگر پولیس اہلکار و بنگلورو نارتھ کے ڈی سی پی سے رابطہ کر تفصیلات حاصل کیں جن کے مطابق ساری تفتیش میں کل آٹھ افراد کی گرفتاری ہوئی تھی اور یہ ملازمین اب بیل پر آزاد ہیں۔
ایف آئی آر، چارج شیٹ
ایف آئی آر میں چار ملزمین کے نام درج ہیں جن پر واردات کے بعد آر ٹی نگر پولیس اسٹیشن کے انسپینٹر نے سو-موٹو کیس درج کیا تھا (عمران خان، محمد اقبال، ملتانی افتخار اور سلطان پاشاہ) جب کے تفتیش کے دوران چار مزید نام ابھر کر آئے ہیں جن میں رام دستی، دویا، عظمت خان اور رابیہ فاتیمہ رہے۔
واضح رہے کہ پولیس کی تحقیقات کے دوران تقریباً ایک کروڑ روپیوں کی بحالی ہوئی ہے اور تقریباً پانچ لاکھ روپے کی مالیت کے زیورات بھی ضبط کئے گئے ہیں۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ وقفے وقفے سے کئی گھپلے سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ سے گرانٹ جاری کرنے کے بعد یہ جانچ بلکل نہیں ہوتی کہ گرانٹ کی رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوئی ہے اور گرانٹ کو قست خرچ کی رپورٹ حاصل کئے بغیر جاری کر دیا جاتا ہے۔