ایودھیا میں آج پروقار وی وی آئی پی سرکاری تقریب کا انعقاد کر کے آخر کار متنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی اہم مرکزی و ریاستی وزرا اور وزیراعلی تک شامل رہے۔ بابری مسجد سے مسلمانوں کا کیسا والہانہ اور ایمانی تعلق ہے، اس کی نظیر آج بھی مسلمانوں میں صاف نظر آتی ہیں۔
مسلمان بابری مسجد سے اپنے ایمانی تعلق کا اظہار مختلف انداز میں اور پرامن طریقہ سے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ آپسی گفتگو، اخبارات و رسائل اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا وغیرہ پر کہیں مختصر انداز میں ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں تو کچھ اہل علم طویل مضامین لکھ کر مسلمانوں کو اپنے ایمان کا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں تو کہیں صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ بہرحال چہار جانب مسلمانوں نے مجموعی طور پر امن و امان برقرار رکھا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ بابری مسجد - رام جنم بھومی متنازع اراضی کا فیصلہ اور اس سے پہلے اراکین بابری مسجد کی سرگرمیاں، مختلف مسلم رہنماؤں کے کردار کو لیکر ہم نے بات کی معروف مسلم دانشور اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سابق رکن ڈاکٹر سید عبداللہ طارق سے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے اپنی بات چیت کے دوران بابری مسجد اراضی سے جڑے کئی اہم نکات کو یاد کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو آپسی سمجھوتے کے تحت عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی وہ اراضی مندر کے لیے سونپ دینی چاہئے تھی۔
انہوں نے کہا کہ بابری مسجد فریق کو کئی ایسے مواقع بھی ملے جس میں کہا گیا تھا کہ آدھی زمین مسجد کے لئے روک کر آدھی مندر کے لئے دے دی جائے لیکن مسلم رہنماء کبھی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے، جس کا نتیجہ آج اس شکل میں سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان اس ملک میں حکمت اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام کریں تو آج بھی ملک کے حالات بہتر بن سکتے ہیں۔ ورنہ اب مسلمانوں کے دیگر شعائر اسلام پر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
سید عبداللہ طارق نے اپنی گفتگو میں خصوصی طور پر اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اب رام مندر تعمیر پر واویلا مچانا بند کریں اور اسلام کا صحیح پیغام برادران وطن تک پہنچائیں۔