ریاست اترپردیش کے شہر بریلی سمیت پورا ملک ان دنوں چوری چورا صد سالہ تقریب کے موقع پر انہیں یاد کررہا ہے، اور ایسے تمام شہیدوں کو یاد کرنے کا موقع ہے، جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی اور ملک کی عزت و آبرو کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔
شہر بریلی کی سرزمین میں بھی ایک ایسا ہی شہید آرام فرما ہے، اس موقع پر اُس عظیم شخصیت کو بھی یاد کیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس دن اُن کے خاندان کے لوگوں کو اعزاز سے بھی سرفراز کیا جا رہا ہے۔
وطن کے نام پر شہید ہونے والے جاں بازوں کی جب فہرست تیار کی جائےگی تو یہ فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی، جب تک اُس میں روہیلہ نواب خان بہادر خان کا نام شامل نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ بریلی کو اپنا مستقل قیام بناکر خان بہادر خان نے اپنے احباب کی اُس روایت کو زندہ رکھا، جو اُن کے دادا حافظ رحمت خان نے برطانوی حکومت کے خلاف شروع کی تھی۔
خان بہادر خان نے برطانوی حکومت کے خلاف جنگِ آزادی کا اعلان کرتے ہوئے اُن کے قدم اُکھاڑ دیے اور آخر میں اُنہیں بھی برطانوی حکومت نے گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکا دیا اور خان بہادر خان نے جامِ شہادت نوش فرمائی۔
جنگِ آزادی کے تاریخی واقعہ کے سو سالہ جشن کے موقع پر بریلی میں خان بہادر خان کی مزار پر بھی میلہ لگایا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کے علاوہ شہیدوں کے قدر دان پہنچ رہے ہیں۔
اس موقع پر ای ٹی وی بھارت نے خان بہادر خان کی تاریخ پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھا اور خان بہادر خان کے دادا حافظ رحمت خاں نے سترہ ویں صدی کے وسط میں برطانوی حکومت کے ظلموں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا۔
اُنہوں نے ایک فوج بھی تیار کی اور انگریزوں کو پناہ دینے والے اودھ کے نواب سے بھی جنگ کی۔
واضح رہے کہ حافظ رحمت خاں 23 اپریل 1774 کو میران پور کٹرہ کے پاس انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔
حافظ رحمت خاں کے بیٹے ذوالفقار علی خاں کے بیٹے کے گھر میں سنہ 1791 میں خان بہادر خان کی پیدائش ہوئی، جو بعد میں سنہ 1857 کی غدر کے ہیرو بنکر تاریخ میں اپنا نام درج کراچکے ہیں۔
خان بہادر خان نے سنہ 1857 کی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی پہلے مرحلے میں ہی بریلی کو برطانوی حکومت سے آزاد کرا لیا تھا اور گیارہ مہینے تک بریلی کو آزاد رکھا تھا۔
خان بہادر خان کو انگریزوں نے گرفتار کرکے سنہ 1860 میں شہر کے عقب کوتوالی میں پھانسی دے دی تھی اور اُنہیں جیل کے احاطے میں بیڑیوں سمیت دفن کر دیا تھا اور پھر سماجوادی پارٹی کے دورِ حکومت میں تین فروری سنہ 2007 کو جیل کی دیوار کو توڑکر اُن کی قبر کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
وطن کے نام پر مر مٹنے والے حافظ رحمت خاں اور خان بہادر خان کی بہادری پر تقریباً دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں تاہم کئی طلبا و طالبات نے ان اہل خانہ کی تاریخ پر اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
وہیں دوسری جانب ملک اور بیرونی ممالک میں ان کے اہل خانہ پر ڈاکیومینٹری بھی بنائی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ تقسیم کے دوران اِس کنبہ نے پاکستان کی کئی سحر انگیز تجاویز کو بھی تسلیم نہیں کیا اور ملک چھوڑکر نہیں گئے۔
واضح رہے کہ چار فروری سنہ 1922 کو چوری چورا سانحہ پیش آیا تھا جس میں درجنوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانیاں دی تھیں۔