موسم سرما اور خاص طور سے چلہ کلان کی ٹھٹھرتی سردی سے نمٹنے کے لیے وادی کے لوگ روئی کے بستر کا خوب استعمال کرتے ہیں جس کو وادی کے بُنکر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد تیار کرتے ہیں۔ اس سے انہیں روزگار بھی فراہم ہوتا ہے۔ تاہم چند برس قبل غیر ریاستی باشندوں نے ایک نئی مشین کا استعمال کرکے وادی کے بُنکروں کا روزگار متاثر کیا ہے۔
بیرون ریاست کے باشدوں کی لائی ہوئی مشین کی مدد سے پرانے کپڑوں کو کاٹ کر بستر تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم چند برس قبل یہاں کے بیشتر لوگ بیرون ریاست سے روئی منگوایا کرتے تھے جس سے بنکر ایک عمدہ بستر تیار کرتے تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق وادی کشمیر کے ہر ضلع میں بیرون ریاستوں سے آئے ہوئے مزدورں کو بستر تیار کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ پرانے کپڑوں کو مشین میں ڈالنے کے بعد مشین سے کافی دھول اٹھتی ہے جو انسانی زندگی کےلیے مضر ثابت ہوتی ہے اور ایسے بستر سے سینے کے امراض میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ ’انتظامیہ کو ایسے بستروں کے بارے میں تحقیق کرنا چاہئے تاکہ نقصان کا پتہ چل سکے‘۔ انہوں نے بتایا کہ اگر پرانے کپڑوں سے بنے بستر انسانی صحت کےلیے نقصاندہ ہوتے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے بستروں پر پابندی عائد کردے۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائدے نے جب ڈاک ایسوسی ایشن جنرل سیکرٹری ڈاکٹر اویس حمید ڈار سے بات کی تو انہوں نے نے پرانے کپڑوں سے بنائے جانے والے بستر پر تحقیق کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں پتہ چل سکے۔ کیونکہ تحقیق کے ذریعہ ہی پتہ چل سکتا ہے کہ یہ انفیشکن کا باعث تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرانے کپڑوں سے تیار کئے جانے والے بستر سے دھول نکلتی ہے، جو allergy اور infection کا باعث بھی بن سکتی ہے، جس کی وجہ سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ زراعت کے کیجول لیبرس کا خاموش احتجاج
انہوں نے کہا جو اس طرح کے پیشوں سے جڑے 19 فیصد لوگوں میں کھانسی، 13 فیصد لوگوں کو secretious ہوتا ہے جبکہ کئی افراد کو دمے کی بیماری بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈسٹرک ایڈمنسٹریشن سے اپیل کی کہ جو لوگ اس طرح کا کاروبار کرتے ہیں، ان کی باضابطہ طور پر چانچ کی جائے تاکہ ان کی صحت کو بھی کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے۔