وہیں جنوبی ضلع کولگام کے کھڑونی علاقہ میں سنہ 1942 میں زراعت سے متعلق (ماؤنٹین ریسرچ سینٹر فار فیلڈ کراپس) نامی تحقیقی مرکز کا وجود عمل میں آیا، اس تحقیقی مرکز کو خاص طور پر زراعت سے منسلک چیزوں کی تحقیق کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔
اس تحقیقی مرکز کا وجود بھارت کی آزادی سے قبل ہوا ہے، اگرچہ کسانوں کو راحت پہنچانے کے لئے کشمیر کے مختلف اضلاع میں کرشی وگیان کیندر کا وجود عمل میں لایا گیا لیکن کھڑونی کا تحقیقی مرکز جنوبی کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا تحقیقی مرکز تھا، اس لئے کھڈونی علاقے میں قائم تحقیقی مرکز خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر عاشق حسین ایسوسیٹ پروفیسر (ایگرونامی) نے کہا کہ یہ تحقیقی مرکز زرعی یونیورسٹی شالیمار (SKUAST) کے تحت آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر خاص طور پر دھان اور سرسو پر تحقیق کی جاتی ہے اور جس کے تحت ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے پیداوار کو بڑھانے میں اچھا خاصا رول نبھایا ہے۔
اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت نے تحقیقی مرکز کے ایسوسیٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر نذیر احمد بٹ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تحقیقی مرکز تقریباً چار سو کنال رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ مذکورہ تحقیقی مرکز آل انڈیا ریسرچ کارڈینیٹر پروجیکٹس میں کھڈونی کا یہ ریسرچ سینٹر اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر جو بھی کام ہوتا ہے، وہ تحقیق پر مبنی ہوتا ہے جبکہ کھڈونی کا تحقیقی مرکز جنوبی کشمیر میں سب سے اہم مرکز ہے، یہ نہ صرف زرعی یونیورسٹی کا اہم مرکز ہے، بلکہ پورے ملک میں اس کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پر زراعت میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والے اسکالروں اور ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبا کو سائنس دانوں کے ذریعہ جانکاری دی جاتی ہے، جبکہ کسانوں کو بھی مختلف قسم کی ٹریننگ سے آراستہ کیا جاتا ہے۔
اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ سائنس دانوں کی تحقیق ہمیشہ اس چیز کو لے کر رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار نکلے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سائنس دانوں کو مختلف اقسام کی تحقیق کرنے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے بعد ہی انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
تحقیقی مرکز کے ذریعہ کسانوں کو جانکاری کے ساتھ ساتھ بہترین پیداواری صلاحیت رکھنے والے بیچ فراہم کئے جاتے ہیں، جس سے وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
'حکومت 50 ہزار بے روزگار نوجوانوں کو مالی معاونت فراہم کرے گی'
واضح رہے کہ سال 1982 میں پھر زرعی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جو کہ اس وقت شالیمار میں موجود شیر کشمیر یونیورسٹی آف اگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنولوجی کے نام سے کافی مقبول ہے۔ اسی زرعی یونیورسٹی کے تحت پھر کشمیر کے تمام مراکز کو رکھا گیا اور کھڈونی کے اس تحقیقی مرکز کو بھی اسی یونیورسٹی کے تحت رکھا گیا جس کے بعد اس تحقیقی مرکز میں نمایاں تبدیلی آئی اور سائنس دانوں کی انتھک کاوشوں کی وجہ سے نہ صرف شالی بلکہ میدانی فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے میں اس تحقیقی مراکز کا کافی اہم رول رہتا ہے۔