مغل بادشاہ جہانگیر کی اہلیہ بیگم نور جہاں نے 1620عیسوی میں اس باغ کی بنیاد رکھی تھی۔
موسم گرما کے شروع ہوتے ہی مقامی ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں، سیاح باغ کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہو کر زندگی کے پرُسکون لمحات یہاں پر گزارتے ہیں ۔
سر سبز شاداب پہاڑی کے دامن میں واقع یہ باغ قدرتی چشموں اور پانی کے جھرنوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
وہیں باغ میں موجود چنار کے وسیع اور سرسبز چنار کے درخت باغ کے حُسن کو اور دوبالا کرتے ہیں ۔
اتنی اہمیت ہونے کے باوجود بھی باغ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہوا ہے۔ معمولی بارش ہونے کے بعد باغ تالاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہیں صاف و صفائی کا فقدان ہونے کی وجہ سے باغ کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے، جس کا براہ راست اثر یہاں کی سیاحتی سرگرمیوں پر پڑ رھا ہے۔
باغ میں موجود مغل دور سلطنت میں تعمیر کیے گئے حمام کے دیواروں پر دراڈیں پڑ گئی ہیں۔حمام کی حالت اتنی خستہ ہو چکی ہے کہ یہ کسی بھی وقت منہدم ہو سکتا ہے۔
تاہم محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے حمام کی تجدید و مرمت عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے ۔تاکہ اس عظیم وراثت کو بچایا جا سکے۔
باغ میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاح آرہے ہیں۔ اینٹری ٹکٹ پر با ضابطہ ہدایت تحریر کی گئی ہے کہ باغ کے اندر پالیتھین و پلاسٹک لے جانا ممنوع ہے اس کے با وجود بھی سیاحوں کو پالیتھین و پلاسٹک اندر لے جانے کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
یہی نہیں بلکہ باغ کے اندر بھی مشروبات و چیپس کے پاکٹ کا اسٹال قائم کیا گیا۔ جس سے صاف طور پر متعلقہ محکمہ کی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سامنے آجاتی ہے ۔
مقامی لوگ باغ کی حالت پر حکومت سے نالاں ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ باغ کی ابتر حالت سے نہ صرف باغ کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ سیاحتی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔نتیجا اس سے جڑے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار بھی متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹری فیس سے اچھی خاصی آمدنی حاصل ہونے کے باوجود باغ کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔انہوں نے سرکار سے باغ کی خوبصورتی کو بحال رکھنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ۔تاکہ مستقبل میں اس عظیم وراثت کی شان رفتہ بحال رہے۔