ریاست اتر پردیش کے ضلع بنارس میں واقع بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ڈاکٹر فیروز خان کی شعبہ سنسکرت میں تقرری کے متعلق طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ ایسے میں معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا شعبہ سنسکرت پورے ملک کے لیے ایک مثال قائم کیے ہوئے ہیں۔ شعبہ سنسکرت میں بھی کئی مذاہب کے طلبہ وطالبات ایک ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور تعلیم دینے والے اساتذہ بھی بین المذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر محمد شریف کا کہنا ہے کہ بی ایچ یو کے مطابق سنسکرت میں 'دھرم کانڈ' پڑھانے کی اجازت کسی دیگر مذاہب کے شخص کو نہیں ہے اور باقاعدہ ایک پتھر پر وہاں نصب بھی ہے۔
انہوں نے بتایا بی ایچ یو کے بانی مدن موہن مالویا نے جب اس فیکلٹی کو بنایا تھا تو اس بات کو لکھا تھا کہ یہاں غیر مذہب کے نا تو استاد ہوگا اور نہ ہی کوئی غیر مذہب کا طالب علم پڑھے گا۔ ان باتوں کا فیروز خان کی تقرری کے وقت خیال رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن اب جب تقرری ہو گئی ہے تو وہاں کے طلبہ اور انتظامیہ کو چاہیے کہ اب فیروز خان کو بی ایچ یو جوائن کرائیں۔
پروفیسر محمد شریف نے کہا فیروز خان ایک قابل شخص ہیں اور اب فیروز خان سے سنسکرت میں دھرم کانڈ مضمون نہ پڑھوا کر سنسکرت لیٹریچر یا اور دوسرے پیپر پڑھواکر پوری دنیا میں ایک مثال قائم کی جائے۔ اب طلبہ کو چاہیے کہ اپنا احتجاج ختم کریں۔ فیروذ خان کو جس سلیکشن کمیٹی میں منتخب کیا گیا اس میں کل بارہ امیدواروں نے انٹرویو دیے تھے لیکن اس میں کوئی بھی مسلمان ایکسپرٹ انٹرویو لینے میں شامل نہیں تھا۔ جس کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا انتخاب بہت ہی صاف ستھرے طریقے سے اور ایمان داری سے ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اے ایم یو میں شعبہ سنسکرت میں ایم اے میں پچیس طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں صرف چھ بچے مسلم ہیں اور کئی اساتذہ بھی ہیں۔ جبکہ شعبہ میں ہر سال نمایاں مقام حاصل کرنے والے اور گولڈ میڈل حاصل کرنے والے زیادہ تر طلبہ غیر مسلم ہوتے ہیں۔
پروفیسر محمد شریف نے کہا اب تنازع کو ختم کرتے ہوئے بی ایچ یو کے طلبہ کو ملک کے وزیراعظم مودی کے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس نعرے کو ماننا چاہیے۔
پروفیسر محمد شریف نے بتایا میں بھی اپنے شعبہ میں رمایئن اور گیتا پڑھاتا ہوں طلبہ کو اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔