پدم بھوشن ایوارڈ یافتہ ممتاز تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں معروف تاجر راہل بجاج نے بھی وزیر داخلہ سے سوالات پوچھے'۔
انہوں نے کہا کہ' ایک شخص جسے اپنی بے پناہ دولت اور ساز و سامان پر مطمئن ہونا چاہیے وہ بھی پریشان ہیں'۔ لوگوں کو ناکردہ سزاؤں کے تحت جیل میں بند کیا جا رہا ہے، کشمیر میں جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے سامنے ہے، مسلمانوں پر گہری نظر رکھی جارہی ہے'۔
ایسے وقت میں ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو متحد ہوکر اس کی مخالفت کرنی پڑے گی۔ اس تعلق سے مہاراشٹر نے راستہ دکھایا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' بڑے پیمانے پر 370 کے تعلق سے افواہیں پھلائیں گئیں اس میں اپوزیشن بھی شامل ہوگیا اور بغیر سوچے سمجھے دفعہ 370 کو منسوخ کردیا گیا۔
دفعہ 370 سے نہ صرف وادی کو فائدہ ہو رہا تھا بلکہ جموں کے کسان بھی اس سے مستفیض ہو رہے تھے، زمینداری بغیر معاوضے کے ختم نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن دفعہ 370 کی وجہ سے کشمیر میں یہ ممکن ہوا۔ ہندو - مسلمان اور ہر طبقے کے کسانوں کو اس دفعہ سے فائدہ ہوا یہ کیسے کہا جاسکتا ہےکہ 370 غلط تھا؟'۔
پروفیسر عرفان حبیب نے مزید کہا کہ ' مجھے بہت افسوس ہے، میں یہ صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ اپوزیشن کی بہت سی جماعتوں نے 370 کی منسوخی میں بی جے پی کی حمایت کی تبھی اتنی آسانی سے یہ منظور ہوا اس کے بعد کشمیر ریاست سے یونین ٹیریٹری بن گیا۔'
ہزاروں کو گرفتار کیا گیا اب ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ وہ شہریت ترمیمی بل لا رہے ہیں۔ اس میں یہ التزام کیا گیا کہ مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ باقی دوسری برادری کو اس میں شامل کیا گیا'۔
ایسے وقت میں اپنے نظریے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی جانی چاہیے'۔