ETV Bharat / city

سرسید احمد خان کی صحافت اور اے ایم یو کا شعبہ ترسیل عامہ - علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے صحافت

سرسید احمد خان نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے نام سے دو جرائد شائع کرکے تعلیمی و سماجی حالات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ صحافتی اخلاقیات اوراصولوں کے پہلوؤں کو اردو صحافت میں بھی عام کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

journalism of sir syed ahmad khan and mass communication department of amu
سرسید احمد خان کی صحافت اور اے ایم یو کا شعبہ ترسیل عامہ
author img

By

Published : Jan 9, 2021, 10:11 PM IST

Updated : Jan 9, 2021, 10:29 PM IST

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے صحافت کا گہرا تعلق ہے اور یہ رشتہ سرسید کے زمانے سے ہی قائم ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہی ہوتا گیا۔

سرسید احمد خان کی صحافت اور اے ایم یو کا شعبہ ترسیل عامہ

سرسید احمد خان کی عملی زندگی کا آغاز ہی صحافت سے ہوا تھا اور وہ سب سے پہلے اپنے بھائی کے سید الاخبار سے منسلک ہوئے، ان کی دور اندیشی کا ہی نتیجہ تھا کہ انھوں نے دو جرائد علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق شائع کرکے تعلیمی و سماجی حالات کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

خبر اور اطلاعات کی معروضیت اس وقت کے اخبارات میں کوئی معنی نہیں رکھتی تھی لیکن سرسید نے ان دو جرائد کے ذریعہ صحافتی اصولوں اور صحافتی اخلاقیات کے پہلوؤں کو اردو صحافت میں بھی عام کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

اے ایم یو اور صحافت کے مابین تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دور کے طالب علموں نے اردو صحافت میں گہری دلچسپی دکھاتے ہوئے اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جس کی وجہ سے اردو صحافت میں ان کا نام قابل ذکر ہے۔

شعبہ ترسیل عامہ کے سربراہ پروفیسر شافع ققدوائی نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں صحافت کا آغاز تقریباً سنہ 1938 میں ہی ہوگیا تھا لیکن صحافت کی اہمیت کے پیش نظر وائس چانسلر محمود الرحمان نے صحافت کا علیحدہ شعبہ 9 نومبر 1996 میں سرفراز ہاؤس میں قائم کیا جس میں آج صحافت کے تمام کورس کی تعلیم دی جاتی ہے۔

اے ایم یو شعبہ ترسیل عامہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد متعدد طلباء آج دنیا کے بڑے اور نمایاں اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی اس سے وہ اپنی مادر علمی کا بھی نام روشن کر رہے ہیں۔

اے ایم یو شعبہ ترسیل عامہ (ماس کمیونیکیشن) کا قیام اور اس کی ترقی۔

شیخ الجامعہ محمد الرحمن کے زمانے میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صحافت کا بھی ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا جائے اور جدید وسائل کے ذریعے صحافت میں اعلی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا جائے۔

وائس چانسلر محمود الرحمن نے صحافت کے جدید شعبہ کے قیام کی اسکیم کو سراہا اور صحافت کی تربیت و تعلیم کے لیے ایک علیحدہ شعبہ کے قیام کی منظوری دے دی۔ جس کے بعد 9 نومبر 1996میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ ترسیل عامہ کا قیام سرفراز ہاؤس میں عمل میں آیا اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ماسٹر ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ شعبہ کے پہلے صدر کے عہدے پر پروفیسر نور علی خاں درانی فائز ہوئے۔

2005 سے شعبہ کی تحقیق کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور پی ایچ ڈی کے اعلی ڈگری بھی منظور ہوئی۔ اب تک شعبہ سے ایک درجن سے زیادہ ریسرچ اسکالر صحافت اور ابلاغ سے متعلق مختلف موضوعات پر اپنی تحقیق مکمل کر چکے ہیں، ملک اور غیر ممالک کے اعلی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔

اے ایم یو کے شعبہ ترسیل عامہ کو سال 2019 میں جہاں انڈیا ٹوڈے کی جانب سے ایم ڈی آر سروے کی آل انڈیا رینکنگ میں 15 واں مقام حاصل تھا۔ وہیں 2020 میں آؤٹ لُک آئی کیئر کے سروے نے اس کو چوتھا مقام دیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے صحافت کا گہرا تعلق ہے اور یہ رشتہ سرسید کے زمانے سے ہی قائم ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہی ہوتا گیا۔

سرسید احمد خان کی صحافت اور اے ایم یو کا شعبہ ترسیل عامہ

سرسید احمد خان کی عملی زندگی کا آغاز ہی صحافت سے ہوا تھا اور وہ سب سے پہلے اپنے بھائی کے سید الاخبار سے منسلک ہوئے، ان کی دور اندیشی کا ہی نتیجہ تھا کہ انھوں نے دو جرائد علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق شائع کرکے تعلیمی و سماجی حالات کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

خبر اور اطلاعات کی معروضیت اس وقت کے اخبارات میں کوئی معنی نہیں رکھتی تھی لیکن سرسید نے ان دو جرائد کے ذریعہ صحافتی اصولوں اور صحافتی اخلاقیات کے پہلوؤں کو اردو صحافت میں بھی عام کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

اے ایم یو اور صحافت کے مابین تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ابتدائی دور کے طالب علموں نے اردو صحافت میں گہری دلچسپی دکھاتے ہوئے اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جس کی وجہ سے اردو صحافت میں ان کا نام قابل ذکر ہے۔

شعبہ ترسیل عامہ کے سربراہ پروفیسر شافع ققدوائی نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں صحافت کا آغاز تقریباً سنہ 1938 میں ہی ہوگیا تھا لیکن صحافت کی اہمیت کے پیش نظر وائس چانسلر محمود الرحمان نے صحافت کا علیحدہ شعبہ 9 نومبر 1996 میں سرفراز ہاؤس میں قائم کیا جس میں آج صحافت کے تمام کورس کی تعلیم دی جاتی ہے۔

اے ایم یو شعبہ ترسیل عامہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد متعدد طلباء آج دنیا کے بڑے اور نمایاں اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی اس سے وہ اپنی مادر علمی کا بھی نام روشن کر رہے ہیں۔

اے ایم یو شعبہ ترسیل عامہ (ماس کمیونیکیشن) کا قیام اور اس کی ترقی۔

شیخ الجامعہ محمد الرحمن کے زمانے میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صحافت کا بھی ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا جائے اور جدید وسائل کے ذریعے صحافت میں اعلی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا جائے۔

وائس چانسلر محمود الرحمن نے صحافت کے جدید شعبہ کے قیام کی اسکیم کو سراہا اور صحافت کی تربیت و تعلیم کے لیے ایک علیحدہ شعبہ کے قیام کی منظوری دے دی۔ جس کے بعد 9 نومبر 1996میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ ترسیل عامہ کا قیام سرفراز ہاؤس میں عمل میں آیا اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ماسٹر ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ شعبہ کے پہلے صدر کے عہدے پر پروفیسر نور علی خاں درانی فائز ہوئے۔

2005 سے شعبہ کی تحقیق کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور پی ایچ ڈی کے اعلی ڈگری بھی منظور ہوئی۔ اب تک شعبہ سے ایک درجن سے زیادہ ریسرچ اسکالر صحافت اور ابلاغ سے متعلق مختلف موضوعات پر اپنی تحقیق مکمل کر چکے ہیں، ملک اور غیر ممالک کے اعلی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔

اے ایم یو کے شعبہ ترسیل عامہ کو سال 2019 میں جہاں انڈیا ٹوڈے کی جانب سے ایم ڈی آر سروے کی آل انڈیا رینکنگ میں 15 واں مقام حاصل تھا۔ وہیں 2020 میں آؤٹ لُک آئی کیئر کے سروے نے اس کو چوتھا مقام دیا تھا۔

Last Updated : Jan 9, 2021, 10:29 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.