متاثرہ کے بھائی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پولیس پر زیادتی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ متاثرہ کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کے کنبے کو گھر میں قید کردیا گیا ہے۔ پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ نہ تو کوئی گاؤں سے باہر جائے گا اور نہ ہی کوئی باہر کا فرد گاؤں میں داخل ہوسکے گا۔
اب تک جو خبریں سامنے آرہی ہیں اس کے مطابق پولیس کی جانب سے متاثرہ کے اہل خانہ کے ساتھ سختی کی جا رہی ہے اور متاثرہ کے اہل خانہ پر دباؤ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ متاثرہ کے بھائی نے میڈیا کے سامنے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ان پر دباؤ بنایا جار ہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے گھر کے تمام افراد کو ایک کمرے میں قید کر دیا گیا ہے۔ گھر پر پولیس کی سخت نگرانی ہے۔ کنبے کے افراد گھر کے اندر محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور گھر کو باہر سے تالا لگادیا دیا گیا ہے۔
متاثرہ کے بھائی نے کہا ' پولیس افسران نے گھر کے تمام افراد سے فون چھین کر سویچ آف کردیا ہے اور انہیں مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ گھر سے کیسے باہر آیا تو اس نے کہا کہ جانوروں کو چارہ دینے کے بہانے کسی طرح باہر آنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس موقعے پر اس نے کہا کہ' انتظامیہ نے گاؤں میں تقریباً 600 کے قریب پولیس اہلکار کو تعینات کیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اب وہ رات کو کسی طرح گھر پہنچنے کی کوشش کرےگا۔
خیال رہے کہ 14 ستمبر کو ہاتھرس میں متاثرہ اپنی ماں کے ساتھ مویشیوں کے لیے چارہ لینے گئی تھی۔ الزام ہے کہ اس وقت گاؤں کا ہی ایک نوجوان آیا اور متاثرہ کو گھسیٹتے ہوئے لے گیا، جہاں اس نے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ جنسی زیادی کی۔ صرف یہی نہیں ملزم نے متاثرہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ اس دوران ملزم نے اسے اتنا مارا پیٹا کہ وہ بے ہوش ہوگئی۔
بیہوش ہونے کے بعد ملزم نے متاثرہ کو مردہ سمجھ کر اسے کھیت میں ہی چھوڑ دیا۔ اس کا پتہ اہل خانہ کو چلا تو فوراً ہی اسے ضلع ہسپتال لے گئے جہاں سے انہیں علی گڑھ ریفر کردیا گیا۔ علی گڑھ کے بعد دہلی کے صفدرجنگ ہسپتال ریفر کردیا گیا، جہاں علاج کے دوران متاثرہ نے دم توڑ دیا۔
اب حالت یہ کہ پورے گاؤں کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا ہے۔ گاؤں میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ لیکن متاثرہ کے بھائی نے میڈیا کو جو حقائق بتائے ہیں اس سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کنبہ چاروں طرف سے پریشانیوں میں گِھر گیا ہے۔