علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے تسلیم کیا کہ سابق وزیراعلی کلیان سنگھ کے انتقال پر وائس چانسلر کی جانب سے پیش کی گئی کی تعزیت کے خلاف دو روز قبل کچھ طلبہ نے پوسٹر لگائے تھے جس کو فورا ہٹوا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ریاست اترپردیش کے سابق وزیراعلی کلیان سنگھ کے انتقال پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی جانب سے دو روز قبل شعبہ رابطہ عامہ نے ایک پریس ریلیز جاری کیا تھا جس میں تعزیت پیش کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ "کلیان سنگھ نے ملک کی عوامی زندگی میں اور اترپردیش کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی روح کو سکون ملے اور اہل خانہ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ نصیب ہو۔ پروفیسر طارق منصور نے آنجہانی کے بیٹے راجویر سنگھ (لوک سبھا رکن) سے بھی تعزیت کی اور ان سے ہمدردی ظاہر کی۔"
پروفسیر طارق منصور کی اس تعزیت کے خلاف یونیورسٹی طلبہ نے یونیورسٹی کے مختلف مقامات میں اردو اور انگریزی زبان میں نوٹس لگائے جس میں یونیورسٹی طلبہ نے وائس چانسلر کی جانب سے پیش کی گئی تعزیت اور ان کے اظہار افسوس کی بھر پور مذمت کی۔ یونیورسٹی کے مختلف مقامات پر لگائے گئے نوٹس کی ہیڈلائن کچھ اس طرح تھی کہ "ایک مجرم کے لیے دعائیہ کلمات ناقابل معافی جرم ہیں۔"
اس خبر کو سب سے پہلے ای ٹی وی بھارت نے دنیا کے سامنے لایا تھا۔
طلبا کی طرف سے لگائے پوسٹر پر یونیورسٹی کے پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے کہا کہ دو روز قبل شب میں کچھ طلبہ نے یونیورسٹی کے مختلف مقامات پر وائس چانسلر کے ذریعے پیش کی گئی تعزیت کے خلاف دو پوسٹر لگائے تھے جس کی ہمیں خبر ملی تو ہماری ٹیم نے فورا ہی پوسٹرز کو ہٹایا اور رات بھر یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی کہ پوسٹر لگانے والا شخص کون ہے اور ابھی بھی ہماری تلاش جاری ہے۔
مزید پڑھیں: وائس چانسلر نے سرسید کے نظریہ کے خلاف کلیان سنگھ کو تعزیت پیش کی: محمد سلمان گوری
بابری مسجد انہدام سے متعلق وہ چہرے جنہیں آپ کبھی بھول نہیں سکتے
واضح رہے ای ٹی وی بھارت پر خبر شائع ہونے کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ کلیان سنگھ کے انتقال پر وائس چانسلر کے ذریعے پیش کی گئی تعزیت کے خلاف یونیورسٹی میں کسی نے پوسٹر نہیں لگائے۔ جب کہ آج یونیورسٹی پراکٹر نے تسلیم کیا کہ دو روز قبل پوسٹر لگائے گئے تھے جن کو ہٹوا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اترپردیش کے دو مرتبہ وزیر اعلی رہ چکے کلیان سنگھ کا 89 برس کی عمر میں 21 اگست کو لکھنئو کے ایس جی پی جی آئی ہسپتال میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ تقریباً دو مہینے تک علالت میں رہے۔
1992 میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس وقت وہ یوپی کے وزیر اعلی تھے۔ مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں اقلیتی طبقہ جانی و مالی نقصان سے دوچار ہوا تھا۔