اس تعلق سے ایک باورچی محمد رفیق شیخ کا کہنا ہے کہ رمضان سے پہلے شادیوں میں کھانا پکانے کے لیے ہمیں بہت آرڈر ملے تھے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے تمام شادی اور تقریب پر پابندی لگ گئی اور ہمارا کھانا پکانے کا بھی کام رک گیا۔ رمضان تو کسی حال میں لاک ڈاؤن کے دوران گزر گیا۔ ایک دوسروں کی مدد سے پیٹ پال لیا لیکن اب لاک ڈاؤن میں رعایت ملنے کے باوجود بھی روزی روٹی حاصل کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ حالانکہ لاک ڈاؤن میں رعایت ملنے کے بعد بہت کم افراد کی موجودگی میں شادیوں کی تقریب کا اہتمام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جس کے سبب ان بھٹیاروں کو روزی روٹی حاصل کرنا مشکل ہو گیا۔
گزشتہ 50 سال سے شادیوں میں کھانا پکانے والے ایک باورچی کا کہنا ہے کہ اب کم لوگوں کا کھانا بنانے کا آرڈر مل رہا ہے، جس سے ہمیں کھانا پکانے کی مزدوری بھی بہت کم مل رہی ہے اور بہت کم مزدوروں میں کھانا بن جاتا ہے۔ تاہم بڑی تعداد میں لوگوں نے شادیاں منسوخ کردی ہیں۔
عید بعد ہمیشہ سے ہزاروں شادیوں کا آرڈر ہمارے پاس رہتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں مل رہا۔ اس بھٹیار وارڈ میں 600 سے زائد بھٹیاروں کے کنبے آباد ہیں۔ اس محلے میں ہر گھر میں کھانا بنانے کے لیے بڑی بڑی دیگیں بھی ہیں۔ چولہا جلانے کے لیے لڑکیوں کا ذخیرہ بھی ہے لیکن اب ان کا استعمال نہیں ہو پا رہا ہے، سارے سامان جوں کے توں رکھے ہوے ہیں۔
ایک اور باورچی کا کہنا ہے کہ یہ کھالی دیگ اور گھروں میں رکھے ہوے کھانا پکانے کے سامان کو دیکھ کر آنسو آ جاتے ہیں، جس کا ہم دن رات استعمال کرتے تھے وہ ایک جگہ پڑے ہوے ہیں۔ سرکار بھی ہمیں مدد کرنے کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہی۔ آخر کار ہم بھی مزدور ہیں لیکن ہمارا حال سننے والا کوئی نہیں۔ اس محلے میں رہنے والے باورچیوں کا لاک ڈاؤن میں کروڑوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ اب بھی برا حال ہے لیکن مددگار کوئی نہیں۔ ان باورچیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کی مدد کرے اور ان کے کام کاج دوبارہ اچھے سے شروع ہونے کا اعلان کرے۔