ETV Bharat / business

جانئیے، ٹیلی کام کمپنیز کا مستقبل کیسا ہوگا؟ - ایڈجسٹ گروس ریونیو

مرکزی سرکار کی جانب سے جولائی2019میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ائرٹیل کو 21 ہزار 682 کروڑ روپے، ووڈافون کو 19 ہزار 823 کروڑ روپے ، ریلائنس کمیونکیشنز کو 16 ہزار 456 کروڑ روپئے ،ایم ٹی این ایل کو 2 ہزار 537کروڑ روپے اور بی ایس این ایل کو 2 ہزار کروڑ 98 کروڑ روپے کی رقم لائسنس فیس کی شکل میں ادا کرنی ہے۔

جانئیے، ٹیلی کام کمپنیز کا مستقبل کیسا ہوگا؟
جانئیے، ٹیلی کام کمپنیز کا مستقبل کیسا ہوگا؟
author img

By

Published : Jan 21, 2020, 7:41 PM IST

Updated : Feb 17, 2020, 9:44 PM IST

اقتصادی اصلاحات کے دور میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر بھارت کی ترقی کے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ شعبہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)میں 6.5فیصد کی حصہ داری رکھتا ہے اور فائیو (5جی )انقلاب کے بعد اسکے 8.2فیصد تک بڑھنے کا اندازہ ہے۔

البتہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے ٹیلی کام سیکٹر کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل دیا ہے۔اکتوبر2019میں سپریم کورٹ نے جنوری23کی ڈیڈ لائن مقرر کرکے ٹیلی کام کمپنیوں کو 1.47کروڑ روپے کی ادائیگی کا پابند بنادیا۔

سپریم کورٹ کے ایک سہ رکنی بینچ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی اس فیصلے کے خلاف اپیل کو مستردکردیا۔چناچہ ٹیلی کام کمپنیاں پہلے ہی 29-32فیصد ٹیکس اور کسٹمزکے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔

مرکزی سرکار کی جانب سے جولائی2019میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ائرٹیل کو 21 ہزار 682 کروڑ روپے، ووڈافون کو 19 ہزار 823 کروڑ روپے ، ریلائنس کمیونکیشنز کو 16 ہزار 456 کروڑ روپئے ،ایم ٹی این ایل کو 2 ہزار 537کروڑ روپے اور بی ایس این ایل کو 2 ہزار کروڑ 98 کروڑ روپے کی رقم لائسنس فیس کی شکل میں ادا کرنی ہے۔
ٹیلی کام آپریٹروں نے مرکزی سرکار کو 'ایڈجسٹڈگراس ریونیو' یعنی اے جی آر ادا کرنے کی حامی تو بھری ہے تاہم انہیں اے جی آر کی حکومت تشریح پر اعتراض تھا۔
جب ٹیلی کام آپریٹر شدید مشکل میں تھے اور مقرر کردہ لائسنس فیس ادا کرنے کی حالت میں نہیں تھے، تب سرکار نے انہیں اقتصادی اصلاحات کے کے طور پر معافی دی تھی۔
لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جن کمپنیوں نے بھاری منافع کمایا انہوں نے سرکار کو اپنے مالیات کے بارے میں صحیح رپورٹ نہیں دی ہے۔صنعتی ماہرین کا خیال ہے کہ ان حالات میں ووڈافون جیسے آپریٹروں کیلئے کاروبار بند کرنے کی نوبت آسکتی ہے۔
واجپائی سرکار کے دور میں جب ٹیلی کام سیکٹر برے دور سے گزر رہا تھا تب سرکار سنہ 1999میں اسے سہارا دینے اور اسکے لئے تیز ترقی کا ماحول بنانے کیلئے بعض تاریخی فیصلے لئے تھے۔
ان تاریخی فیصلوں نے نئی ٹیلی کام پالیسی (این ٹی پی)کیلئے راستہ ہموار کیا تھا جسکے تحت مالیاتی اشتراک کے علاوہ سالانہ لائسنس فیس کی بجائے یک وقتی داخلہ فیس وصول کیا جانے لگا۔
سال 2013میں سرکار نے پندرہ فیصد اے جی آر کو گھٹا کر اسے آٹھ فیصد کردیا تھا۔سال2004میں ٹیلی کام آپریٹروں کی مجموعی آمدنی 4,855کروڑ روپے تھی جو سال 2015تک بڑھتے بڑھتے 2 لاکھ 38 ہزار کروڑ روپے ہوگئی تھی۔
سرکار نے اپنی ڈرافٹ پالیسی میں اے جی آر کی تعریف واضح کردی تھی،آپریٹروں نے تب اس پالیسی کی حمایت کی تھی لیکن اب انہوں نے اس حوالے سے رُخ پھیر لیا ہے اور یہی موجودہ تنازعے کی وجہ ہے۔
جیو کی جانب سے آٹھ روپے میں ایک جی بی ڈیٹا کی پیشکش سے دیگر آپریٹروں کو سال 2017-19میں 25فیصد نقصان اٹھانا پڑا۔ملک میں فی کس آمدنی،جو2015میں 174روپے تھی،گھٹ کر حال ہی میں 113روپے ہوگئی ہے۔
بڑھتے ہوئے ان منفی حالات کے بیچ ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے کا قرضہ ٹیلی کام سیکٹر کو بکھراؤ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ٹیلی کام سیکٹر میں فائیو جی اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ترقی کے بیچ ایسے مناسب اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے کہ جن سے دونوں، مرکزی سرکار اور ٹیلی کام آپریٹر فائدے میں رہیں۔
محکمہ ٹیلی کام (ڈی او ٹی)کی ویب سائٹ کے مطابق ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن کی 3,468لائسنسز ہیں۔مرکزی حکومت کے اس اعلان کے بعد اے جی آر سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سبھی غیر ٹیلی کام کمپنیوں کیلئے نافذالعمل ہوگا۔وہیں اکیلے سرکاری سیکٹر کی تنظیمیں تقریبا تین لاکھ کروڑ روپے کی مقروض ہیں۔
مختلف کمپنیوں جیسے پاور گرڈ کارپوریشن کی95 فیصد آمدنی بجلی کی ترسیل اور دو فیصد ٹیلی کام سروسز سے آتی ہے۔حالانکہ پاورگرڈ کارپوریشن جس نے صرف ٹیلی کام سروسز سے ہی 742کروڑ روپے کمائےہیں اسے صرف 59کروڑ روپے کی لائسنس فیس ادا کرنی ہے لیکن موجودہ تشخیص نے اس پر 1.25لاکھ کروڑ روپے کی قرض ادائیگی کے لیے کہا ہے۔
سرکاری ملکیت والی 'گیس یوٹیلیٹی انڈیا لمیٹڈ 'یعنی جی اے آئی ایل کو بھی 1.72لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی کا نوٹس ملا ہے اور یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا سپریم کورٹ سرکاری ملکیت والی ان کمپنیوں کی اپیلوں پر غور کرے گی بھی یا نہیں۔
مرکزی سرکار نے 42 ہزار کروڑ روپے کی سپکٹرم فیس میں تاخیر کرکے دو سال کی مہلت کو منظوری دی ہے۔اس بات پر بڑی تنقید ہورہی ہے کہ سپکٹرم کی نیلامی کے تعارف سے ٹھیک پہلے تقسیم نہیں کی گئی تھی۔
چونکہ مرکزی سرکار سپکٹرم کی نیلامی سے حد سے زیادہ پیشگی رقومات کماتی ہے،تجارتی ذرائع اضافی لائسنس فیس کی وصولی کے خلاف ہیں۔ایک ایسے وقت پر جب ملک کو فائیو جی انقلاب کی ضروریات سے لیس ہونا چاہیئے ، ویسے میں ٹیلی کام صنعت کی موجودہ غیر یقینیت کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہوسکتی ہے۔

اقتصادی اصلاحات کے دور میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر بھارت کی ترقی کے ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ شعبہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)میں 6.5فیصد کی حصہ داری رکھتا ہے اور فائیو (5جی )انقلاب کے بعد اسکے 8.2فیصد تک بڑھنے کا اندازہ ہے۔

البتہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے ٹیلی کام سیکٹر کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل دیا ہے۔اکتوبر2019میں سپریم کورٹ نے جنوری23کی ڈیڈ لائن مقرر کرکے ٹیلی کام کمپنیوں کو 1.47کروڑ روپے کی ادائیگی کا پابند بنادیا۔

سپریم کورٹ کے ایک سہ رکنی بینچ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی اس فیصلے کے خلاف اپیل کو مستردکردیا۔چناچہ ٹیلی کام کمپنیاں پہلے ہی 29-32فیصد ٹیکس اور کسٹمزکے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔

مرکزی سرکار کی جانب سے جولائی2019میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ائرٹیل کو 21 ہزار 682 کروڑ روپے، ووڈافون کو 19 ہزار 823 کروڑ روپے ، ریلائنس کمیونکیشنز کو 16 ہزار 456 کروڑ روپئے ،ایم ٹی این ایل کو 2 ہزار 537کروڑ روپے اور بی ایس این ایل کو 2 ہزار کروڑ 98 کروڑ روپے کی رقم لائسنس فیس کی شکل میں ادا کرنی ہے۔
ٹیلی کام آپریٹروں نے مرکزی سرکار کو 'ایڈجسٹڈگراس ریونیو' یعنی اے جی آر ادا کرنے کی حامی تو بھری ہے تاہم انہیں اے جی آر کی حکومت تشریح پر اعتراض تھا۔
جب ٹیلی کام آپریٹر شدید مشکل میں تھے اور مقرر کردہ لائسنس فیس ادا کرنے کی حالت میں نہیں تھے، تب سرکار نے انہیں اقتصادی اصلاحات کے کے طور پر معافی دی تھی۔
لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جن کمپنیوں نے بھاری منافع کمایا انہوں نے سرکار کو اپنے مالیات کے بارے میں صحیح رپورٹ نہیں دی ہے۔صنعتی ماہرین کا خیال ہے کہ ان حالات میں ووڈافون جیسے آپریٹروں کیلئے کاروبار بند کرنے کی نوبت آسکتی ہے۔
واجپائی سرکار کے دور میں جب ٹیلی کام سیکٹر برے دور سے گزر رہا تھا تب سرکار سنہ 1999میں اسے سہارا دینے اور اسکے لئے تیز ترقی کا ماحول بنانے کیلئے بعض تاریخی فیصلے لئے تھے۔
ان تاریخی فیصلوں نے نئی ٹیلی کام پالیسی (این ٹی پی)کیلئے راستہ ہموار کیا تھا جسکے تحت مالیاتی اشتراک کے علاوہ سالانہ لائسنس فیس کی بجائے یک وقتی داخلہ فیس وصول کیا جانے لگا۔
سال 2013میں سرکار نے پندرہ فیصد اے جی آر کو گھٹا کر اسے آٹھ فیصد کردیا تھا۔سال2004میں ٹیلی کام آپریٹروں کی مجموعی آمدنی 4,855کروڑ روپے تھی جو سال 2015تک بڑھتے بڑھتے 2 لاکھ 38 ہزار کروڑ روپے ہوگئی تھی۔
سرکار نے اپنی ڈرافٹ پالیسی میں اے جی آر کی تعریف واضح کردی تھی،آپریٹروں نے تب اس پالیسی کی حمایت کی تھی لیکن اب انہوں نے اس حوالے سے رُخ پھیر لیا ہے اور یہی موجودہ تنازعے کی وجہ ہے۔
جیو کی جانب سے آٹھ روپے میں ایک جی بی ڈیٹا کی پیشکش سے دیگر آپریٹروں کو سال 2017-19میں 25فیصد نقصان اٹھانا پڑا۔ملک میں فی کس آمدنی،جو2015میں 174روپے تھی،گھٹ کر حال ہی میں 113روپے ہوگئی ہے۔
بڑھتے ہوئے ان منفی حالات کے بیچ ایک لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے کا قرضہ ٹیلی کام سیکٹر کو بکھراؤ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ٹیلی کام سیکٹر میں فائیو جی اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ترقی کے بیچ ایسے مناسب اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے کہ جن سے دونوں، مرکزی سرکار اور ٹیلی کام آپریٹر فائدے میں رہیں۔
محکمہ ٹیلی کام (ڈی او ٹی)کی ویب سائٹ کے مطابق ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن کی 3,468لائسنسز ہیں۔مرکزی حکومت کے اس اعلان کے بعد اے جی آر سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ سبھی غیر ٹیلی کام کمپنیوں کیلئے نافذالعمل ہوگا۔وہیں اکیلے سرکاری سیکٹر کی تنظیمیں تقریبا تین لاکھ کروڑ روپے کی مقروض ہیں۔
مختلف کمپنیوں جیسے پاور گرڈ کارپوریشن کی95 فیصد آمدنی بجلی کی ترسیل اور دو فیصد ٹیلی کام سروسز سے آتی ہے۔حالانکہ پاورگرڈ کارپوریشن جس نے صرف ٹیلی کام سروسز سے ہی 742کروڑ روپے کمائےہیں اسے صرف 59کروڑ روپے کی لائسنس فیس ادا کرنی ہے لیکن موجودہ تشخیص نے اس پر 1.25لاکھ کروڑ روپے کی قرض ادائیگی کے لیے کہا ہے۔
سرکاری ملکیت والی 'گیس یوٹیلیٹی انڈیا لمیٹڈ 'یعنی جی اے آئی ایل کو بھی 1.72لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی کا نوٹس ملا ہے اور یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا سپریم کورٹ سرکاری ملکیت والی ان کمپنیوں کی اپیلوں پر غور کرے گی بھی یا نہیں۔
مرکزی سرکار نے 42 ہزار کروڑ روپے کی سپکٹرم فیس میں تاخیر کرکے دو سال کی مہلت کو منظوری دی ہے۔اس بات پر بڑی تنقید ہورہی ہے کہ سپکٹرم کی نیلامی کے تعارف سے ٹھیک پہلے تقسیم نہیں کی گئی تھی۔
چونکہ مرکزی سرکار سپکٹرم کی نیلامی سے حد سے زیادہ پیشگی رقومات کماتی ہے،تجارتی ذرائع اضافی لائسنس فیس کی وصولی کے خلاف ہیں۔ایک ایسے وقت پر جب ملک کو فائیو جی انقلاب کی ضروریات سے لیس ہونا چاہیئے ، ویسے میں ٹیلی کام صنعت کی موجودہ غیر یقینیت کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہوسکتی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 17, 2020, 9:44 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.