ETV Bharat / business

ماحولیاتی کثافت کو قابو کرنے کیلئے نئے طریقے اختیار

آلودہ گیسز کے انسانی زندگی اورطرزحیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بھارت میں آلودہ ہوا سے ہر سال 5 سال سے کم عمر کے قریب ایک لاکھ بچے موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں۔ آلودگی سے دمہ، سانس کی بیمیاریاں اور امراض قلب پیدا ہوتے ہیں اور ان بیماریوں میں کمی کا تعلق براہ راست گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ہیں۔ فی الوقت بھارت سٹیج۔۔4گاڑیاں50پی پی ایم تک سلفر کا اخراج کرتی ہے، جبکہ بھارت سٹیج۔6گاڑیوں سے اس میں10فیصد کمی واقع ہوگی۔

author img

By

Published : Apr 10, 2020, 7:25 PM IST

ماحولیاتی کثافت کو قابو کرنے کیلئے بھارت نئے طریقے اخیتار کررہی ہے
ماحولیاتی کثافت کو قابو کرنے کیلئے بھارت نئے طریقے اخیتار کررہی ہے

بھارت مرحلہ6(بی ایس 6)کے اطلاق کیلئے بھارت تیار

ملک بھر میں گاڑیوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی کثافت میں بھی اضافہ ہو رہا۔ہر سال لاکھوں نئی گاڑیاں سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ان گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن سے کثافت خطرات کی سطح تک بڑھ رہی ہے۔ کثافت کے حوالے سے دنیا بھر میں 10 بڑے شہر بھارت میں ہیں،جس سے ان حقائق کی عکاسی ہوتی ہے کہ صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔کثافت کو قابو کرنے کے مد نظر ملک بھر میں پہلی مرتبہ سنہ 1991میں پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن کی سطح پر بندشیں عائد کی گئی۔ اس وقت سے لیڈ سے پاک پیٹرول اور’’کیٹالک کنوٹروں‘‘ کا استعمال گاڑیوں سے پیدا ہونے والی کثافت کو کم کرنے کیلئے استعمال میں لایا جانے لگا۔

گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن کو قابو میں کرنے کیلئے حکومت ہند کی طرف سے سال2002میں مشیلکار کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا،جس نے رپورٹ تیار کی۔یورپی یونین نے پہلے ہی کاربن اخراج کنٹرول کے معیار کو طے کیا اور دنیا بھر میں گاڑیوں سے ہونے والی کثافت کیلئے کئی ضوابط کو منظوری دی۔ مشیلکارکمیٹی نے اپنی رپورٹ کیلئے ان کے معیار کو رہنما بنایا۔مرکزی حکومت نے مشیلکار کمیٹی کی رپورٹ کو ہری جھنڈی دکھائی اور نیشنل وہیکل فیول پالیسی(گاڑیوں کے ائندھن سے متعلق قومی پالیسی) کا2003میں اعلان کیا۔ اس کو بھارت سٹیج کا نام دیا گیا اور یہ یورپی معیار کے ہم پلہ ہے۔ اس پالیسی کو مرحلہ وار بنیادوں پر کاربن کے اخراج کی ضوابط پر تجدید کی گئی۔

ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے گاڑیوں کو تیار کرنے کی صنعت اور پیٹرول مصنوعات کو تیار کرنے میں انقلابی تبدیلیاں عمل میں لائی جا رہی ہے۔ بھارت اسٹیج کو سال2003میں ایرو۔2کے ضوابط پر متعارف کیا گیا۔اور اس وقت سے ایرو معیار میں جدیدت لانے کے تحت اس میں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ بھارت اسٹیج۔6یکم اپریل سے شروع ہوگا، جبکہ بھارت اسٹیج گاڑیوں کے انجنوں کیلئے معیار کو مرتب کرتا ہے اور وہ کاربن کے اخراج کے ضوابط طے کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بھارت سٹیچ۔6انجمنوں کو ریفائنیڈ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے تحت تیل صاف کرنے والی فیکٹریوں کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عوامی اور نجی شعبوں کی کمپنیوں کو جدید بنانے کیلئے30ہزار کروڑ روپے سے زائد رقومات کی ضرورت ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ احکامات کے تحت بھارت سٹیج ۔4 گاڑیوں کی رجسٹریشن اور انہیں فروخت کرنے کیلئے31مارچ کو ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے، جبکہ یکم اپریل سے صرف بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کی ہی خریداری ہوگی۔مرکزی حکومت بھارت اسٹیج۔6 کوتمام بازاروں میں نافذلعمل بنانا چاہتی ہے، جبکہ اسی وقت الیکٹراک گاڑیوں پر بھی نظر بنائے رکھئے ہوئے ہیں۔اگر چہ مرکز بری تعداد میں الیکٹرک گاڑیوں کو سنہ 2030تک سڑکوں پر لانا چاہتی ہے،تاہم ایسا نظر آرہا ہے کہ اس میں تاخیر ہوگی۔

کثیر فوائد

بھارت سٹیج۔6 معیار کا معقول ایندھن یکم اپریل سے قومی سطح پر دستیاب ہوگا۔ٹیکسوں اور انشورنس میں اضافہ کے نتیجے میں گاڑیوں کو فروخت کرنے کا عمل کافی سخت ہوگا۔اشیاء و خدمات ٹیکسوں میں کمی سے گاڑیوں کی خریدار میں اضافہ ہوگا اور ممکنہ طور پر یہ صنعت نقصانات کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے۔ نیتی آیوگ کو اس بات کی امید ہے کہ بھارت کی معیشت سال2030تک10ٹریلین ہوجائے گی۔ رسل و وسائل کی صنعت میں اس بات کی تجویز ہے کہ سال2025تک150سی سی سے کم دو پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کیا جائے گا، جبکہ سال2023تین پہیوں والی ایسے ہی گاڑیوں کو متعارف کیا جائے گا۔

الیکٹرک گاڑیاں پہلے ہی بازاروں میں آچکی ہے تاہم انکی خریداری معمولی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کم ہے۔ چارجنگ پواینٹوں اور مابعد سہولیات کی وجہ سے بھی انکی خریداری کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہو رہے ہیں۔ان گاڑیوں کو شہروں میں کم مسافت طے کرنے کے نتیجے میں ہی خریدا جا رہا ہے۔ان گاڑیوں میں لتھیم ایون بیٹریوں کا استعمال عمل میں لایا جا رہا ہے۔ان بیٹریوں کو تیار کرنے کیلئے خام مال کی کمی کی وجہ سے،ان کی پیدوار حوصلہ کن نہیں ہے۔ کچھ ہی ملکوں میں بیٹریوں کیلئے خام مال دستیاب ہے۔ایسے ہی کئی ایک وجوہات کار فرماہے جن کے نتیجے میں الیکٹرک گاڑیاں کم ازکم آئندہ15برسوں تک پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ایسے ہی کئی وجوہات کی بنیاد پر ماہرین اس بات کی یقین دہانی کر رہے ہیں کہ آٹو موبائل صنعت کسی بھی رکاوٹ کے بغیر پیش رفت کریں گی۔

ماضی میںبیٹریوں کو چارج کرنے کے اسٹیشنوں کی بڑی تعداد کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی ایک کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں اور اسکوٹروں میں سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں روایتی ایندھن کا استعمال کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔پیٹرول مصنوعات میں سعودی عرب اور روس کے درمیان مقابلہ سے قیمتیں بھی کم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ اخد ہوا ہے کہ روایتی گاڑیوں کا استعمال بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت سٹیج۔6 ماحولیاتی آلودگی کے اخراج، جن میں لیڈ سلفر،کاربن مونو آکسائڈ اور نیٹروجن شامل ہیں، کم ہو رہے ہیں۔ ان وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت سٹیج۔6 ملک کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچائے گا۔ مرکزی حکومت گاڑیوں کی مدت کو کم کرکے15برسوں تک محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے، جبکہ15برسوں کا وقت ختم ہونے کے بعد ان گاڑیوں کو ردی سمجھا جائے گا اور اگر کوئی ایسا فیصلہ لیا گیا تو نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوگا۔

ماحولیات،نگہداشت اور صحت

بھارت سٹیج۔6گاڑیاں اور ان کے ایندھن کی قیمتیں زیادہ ہونگی، تاہم بھارت سٹیج۔6 سے عوامی صحت کا تحفظ ہوگا جبکہ ماحولیات بھی محفوظ رہے گا۔ بھارت سٹیج۔ چوتھے اور5ویں مرحلہ پہلے سے ہی موجود ہے۔پانچوں اور چھٹے مرحلے میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے مگر مرکزی حکومت نے یکم اپریل سے چھٹے مرحلے کو لاگو کرنے کا فیصلہ لیا ہے،تاکہ عوام اور آٹومیٹیو صنعت کو اس سے استفادہ حاصل ہو۔اگر پانچوں مرحلے کو مکمل طور پر نافذ العمل بنایاگیا ہوتا، تو مرحلہ وار بنیادوں پر آٹو موبائل صنعت کو جدید بنانے میں زیادہ آسانی ہوتی۔اب مزید صاف ایندھن اورایندھن کے مسافت میں اضافہ ہوگا، جبکہ گاڑیوں میں بھی آلودگی کم ہوگی۔ بھارت سٹیج۔6گاڑیاں میں انجنوں کے معیار سے کاربن کا اخراج بھی پیٹرول گاڑیوں میں25فیصد کم ہوگا، جبکہ ڈیزل گاڑیوں میں اس کا اخراج68فیصد کم ہوگا۔عوامی ٹرانسپورٹ میں کافی تعداد میں گاڑیوں کے علاوہ نئی گاڑیوں کے شامل ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی،اقوم متحدہ کی تحقیق کے مطابق دنیابھر میں 10میں9 افراد کو آلودہ ہوا سے خطرات لاحق ہے۔

آلودہ گیسوں کا انسانی زندگی اورطرز حیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بھارت میں آلودہ ہوا سے ہر سال5سال سے کم عمر کے قریب ایک لاکھ بچے موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔آلودگی سے دمہ،سانس کی بیمیاریاں اور امراض قلب پیدا ہوتا ہے اور ان بیماریوں میں کمی کا تعلق براہ راست گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ہیں۔فی الوقت بھارت سٹیج۔۔4گاڑیاں50پی پی ایم تک سلفر کا اخراج کرتی ہے، جبکہ بھارت سٹیج۔6گاڑیوں سے اس میں10فیصد کمی واقع ہوگی۔ بھارت سٹیج۔6،ائرو۔۔6معیار کا ہے جو کہ فی الوقت یورپی ممالک میں نافذ العمل ہیں۔جاپان اور امریکہ بھی ایرئو۔6کو اپنا رہا ہے۔ بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کا استعمال کرنے سے ہم جدید گاڑیوں کا استعمال کرنے کے میدان میں جانے جائیںگے۔ نیا ایندھن ان پرانی گاڑیوں کیلئے بھی سود مند ثابت ہوگا، جو پہلے سے استعمال میں لائی جا رہی ہے اور اس سے ماحولیاتی تحفظ کو مدد فراہم ہوگا۔ہم ایندھن کی برآمدگی پر منحصر ہے جبکہ نیا نظام ایندھن کے خرچہ میں بھی کمی لائے گا، کیونکہ اس سے ایندھن کی مسافت بھی بڑے گی۔اس تناظر میں ایندھن کی بر آمدگی میں بھی کمی آئے گی اور کچھ حد تک قیمتی بین الاقوامی زر مبادلہ بھی بچ جائے گا۔

چلینج درپیش

ملک میں کچھ وقت سے آٹو موبائل صنعت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں جبکہ ماضی عنقریب میں بھارت سٹیج۔6 میں شامل ہونے سے اس صنعت پر کافی بوجھ پڑ گیا۔ماحولیاتی ماہرین کا استفسار ہے کہ عوامی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیلی ناگریز ہے۔نئے نظام کے ساتھ جڑنے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔امسال یک اپریل سے بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کا ہی اندراج ہوگا، جس کے نتیجے میں لاکھوں بھارت سٹیج۔4 گاڑیاں بازاروں اور شو روموں میں ایسے ہی رہیں گی۔ حکام نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان گاڑیوں کو ردی سمجھا جائے گا۔ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ہی بیشتر لوگ بھارت سٹیج۔ 4گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

مال بردار ٹرانسپورٹ میں بڑی تعداد میں ٹرکیں شامل ہیں، جبکہ مالکان نے بھارت سٹیج۔4 کی ٹرکیں خریدنے کا سلسلہ بھی بند کیا ہے اور بھارت سٹیج۔6پر انہوں نے اپنی نظریں لگا ئی ہیں۔اس نتیجے میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بھی کافی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھارت سٹیج۔6زمرے میں دو پہیوں والی گاڑیاں اور مسافر بردار کاریں پہلے ہی بازاروں میں آچکی ہیں،جبکہ آٹو موبائل صنعت گزشتہ ایک برس سے خود کو نئے سانچے میں ڈال رہا ہے،تاہم ابھی تک صارفین کو بھارت سٹیج۔6کی مکمل جانکاری میسر نہیں ہے۔ ماہرین ماحولیات کو یقین ہے کہ اگر مرکزی و ریاستی حکومتوں نے بھارت سٹیج۔6 معیار کی گاڑیوںکی جانکاری اور فوائدوں سے متعلق جامع مہم چلائی ہوتی تو اس وقت خریداروں کو نئی گاڑیوں کی خریداری سے متعلق خوف و خدشات لاحق نہیں ہوتے۔

بھارت مرحلہ6(بی ایس 6)کے اطلاق کیلئے بھارت تیار

ملک بھر میں گاڑیوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی کثافت میں بھی اضافہ ہو رہا۔ہر سال لاکھوں نئی گاڑیاں سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ان گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن سے کثافت خطرات کی سطح تک بڑھ رہی ہے۔ کثافت کے حوالے سے دنیا بھر میں 10 بڑے شہر بھارت میں ہیں،جس سے ان حقائق کی عکاسی ہوتی ہے کہ صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔کثافت کو قابو کرنے کے مد نظر ملک بھر میں پہلی مرتبہ سنہ 1991میں پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن کی سطح پر بندشیں عائد کی گئی۔ اس وقت سے لیڈ سے پاک پیٹرول اور’’کیٹالک کنوٹروں‘‘ کا استعمال گاڑیوں سے پیدا ہونے والی کثافت کو کم کرنے کیلئے استعمال میں لایا جانے لگا۔

گاڑیوں سے خارج ہونے والے کاربن کو قابو میں کرنے کیلئے حکومت ہند کی طرف سے سال2002میں مشیلکار کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا،جس نے رپورٹ تیار کی۔یورپی یونین نے پہلے ہی کاربن اخراج کنٹرول کے معیار کو طے کیا اور دنیا بھر میں گاڑیوں سے ہونے والی کثافت کیلئے کئی ضوابط کو منظوری دی۔ مشیلکارکمیٹی نے اپنی رپورٹ کیلئے ان کے معیار کو رہنما بنایا۔مرکزی حکومت نے مشیلکار کمیٹی کی رپورٹ کو ہری جھنڈی دکھائی اور نیشنل وہیکل فیول پالیسی(گاڑیوں کے ائندھن سے متعلق قومی پالیسی) کا2003میں اعلان کیا۔ اس کو بھارت سٹیج کا نام دیا گیا اور یہ یورپی معیار کے ہم پلہ ہے۔ اس پالیسی کو مرحلہ وار بنیادوں پر کاربن کے اخراج کی ضوابط پر تجدید کی گئی۔

ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے گاڑیوں کو تیار کرنے کی صنعت اور پیٹرول مصنوعات کو تیار کرنے میں انقلابی تبدیلیاں عمل میں لائی جا رہی ہے۔ بھارت اسٹیج کو سال2003میں ایرو۔2کے ضوابط پر متعارف کیا گیا۔اور اس وقت سے ایرو معیار میں جدیدت لانے کے تحت اس میں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ بھارت اسٹیج۔6یکم اپریل سے شروع ہوگا، جبکہ بھارت اسٹیج گاڑیوں کے انجنوں کیلئے معیار کو مرتب کرتا ہے اور وہ کاربن کے اخراج کے ضوابط طے کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بھارت سٹیچ۔6انجمنوں کو ریفائنیڈ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے تحت تیل صاف کرنے والی فیکٹریوں کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عوامی اور نجی شعبوں کی کمپنیوں کو جدید بنانے کیلئے30ہزار کروڑ روپے سے زائد رقومات کی ضرورت ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ احکامات کے تحت بھارت سٹیج ۔4 گاڑیوں کی رجسٹریشن اور انہیں فروخت کرنے کیلئے31مارچ کو ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے، جبکہ یکم اپریل سے صرف بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کی ہی خریداری ہوگی۔مرکزی حکومت بھارت اسٹیج۔6 کوتمام بازاروں میں نافذلعمل بنانا چاہتی ہے، جبکہ اسی وقت الیکٹراک گاڑیوں پر بھی نظر بنائے رکھئے ہوئے ہیں۔اگر چہ مرکز بری تعداد میں الیکٹرک گاڑیوں کو سنہ 2030تک سڑکوں پر لانا چاہتی ہے،تاہم ایسا نظر آرہا ہے کہ اس میں تاخیر ہوگی۔

کثیر فوائد

بھارت سٹیج۔6 معیار کا معقول ایندھن یکم اپریل سے قومی سطح پر دستیاب ہوگا۔ٹیکسوں اور انشورنس میں اضافہ کے نتیجے میں گاڑیوں کو فروخت کرنے کا عمل کافی سخت ہوگا۔اشیاء و خدمات ٹیکسوں میں کمی سے گاڑیوں کی خریدار میں اضافہ ہوگا اور ممکنہ طور پر یہ صنعت نقصانات کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے۔ نیتی آیوگ کو اس بات کی امید ہے کہ بھارت کی معیشت سال2030تک10ٹریلین ہوجائے گی۔ رسل و وسائل کی صنعت میں اس بات کی تجویز ہے کہ سال2025تک150سی سی سے کم دو پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کیا جائے گا، جبکہ سال2023تین پہیوں والی ایسے ہی گاڑیوں کو متعارف کیا جائے گا۔

الیکٹرک گاڑیاں پہلے ہی بازاروں میں آچکی ہے تاہم انکی خریداری معمولی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کم ہے۔ چارجنگ پواینٹوں اور مابعد سہولیات کی وجہ سے بھی انکی خریداری کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہو رہے ہیں۔ان گاڑیوں کو شہروں میں کم مسافت طے کرنے کے نتیجے میں ہی خریدا جا رہا ہے۔ان گاڑیوں میں لتھیم ایون بیٹریوں کا استعمال عمل میں لایا جا رہا ہے۔ان بیٹریوں کو تیار کرنے کیلئے خام مال کی کمی کی وجہ سے،ان کی پیدوار حوصلہ کن نہیں ہے۔ کچھ ہی ملکوں میں بیٹریوں کیلئے خام مال دستیاب ہے۔ایسے ہی کئی ایک وجوہات کار فرماہے جن کے نتیجے میں الیکٹرک گاڑیاں کم ازکم آئندہ15برسوں تک پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ایسے ہی کئی وجوہات کی بنیاد پر ماہرین اس بات کی یقین دہانی کر رہے ہیں کہ آٹو موبائل صنعت کسی بھی رکاوٹ کے بغیر پیش رفت کریں گی۔

ماضی میںبیٹریوں کو چارج کرنے کے اسٹیشنوں کی بڑی تعداد کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی ایک کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں اور اسکوٹروں میں سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں روایتی ایندھن کا استعمال کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔پیٹرول مصنوعات میں سعودی عرب اور روس کے درمیان مقابلہ سے قیمتیں بھی کم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ اخد ہوا ہے کہ روایتی گاڑیوں کا استعمال بہتر سمجھا جاتا ہے۔ بھارت سٹیج۔6 ماحولیاتی آلودگی کے اخراج، جن میں لیڈ سلفر،کاربن مونو آکسائڈ اور نیٹروجن شامل ہیں، کم ہو رہے ہیں۔ ان وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت سٹیج۔6 ملک کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچائے گا۔ مرکزی حکومت گاڑیوں کی مدت کو کم کرکے15برسوں تک محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے، جبکہ15برسوں کا وقت ختم ہونے کے بعد ان گاڑیوں کو ردی سمجھا جائے گا اور اگر کوئی ایسا فیصلہ لیا گیا تو نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوگا۔

ماحولیات،نگہداشت اور صحت

بھارت سٹیج۔6گاڑیاں اور ان کے ایندھن کی قیمتیں زیادہ ہونگی، تاہم بھارت سٹیج۔6 سے عوامی صحت کا تحفظ ہوگا جبکہ ماحولیات بھی محفوظ رہے گا۔ بھارت سٹیج۔ چوتھے اور5ویں مرحلہ پہلے سے ہی موجود ہے۔پانچوں اور چھٹے مرحلے میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے مگر مرکزی حکومت نے یکم اپریل سے چھٹے مرحلے کو لاگو کرنے کا فیصلہ لیا ہے،تاکہ عوام اور آٹومیٹیو صنعت کو اس سے استفادہ حاصل ہو۔اگر پانچوں مرحلے کو مکمل طور پر نافذ العمل بنایاگیا ہوتا، تو مرحلہ وار بنیادوں پر آٹو موبائل صنعت کو جدید بنانے میں زیادہ آسانی ہوتی۔اب مزید صاف ایندھن اورایندھن کے مسافت میں اضافہ ہوگا، جبکہ گاڑیوں میں بھی آلودگی کم ہوگی۔ بھارت سٹیج۔6گاڑیاں میں انجنوں کے معیار سے کاربن کا اخراج بھی پیٹرول گاڑیوں میں25فیصد کم ہوگا، جبکہ ڈیزل گاڑیوں میں اس کا اخراج68فیصد کم ہوگا۔عوامی ٹرانسپورٹ میں کافی تعداد میں گاڑیوں کے علاوہ نئی گاڑیوں کے شامل ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی،اقوم متحدہ کی تحقیق کے مطابق دنیابھر میں 10میں9 افراد کو آلودہ ہوا سے خطرات لاحق ہے۔

آلودہ گیسوں کا انسانی زندگی اورطرز حیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بھارت میں آلودہ ہوا سے ہر سال5سال سے کم عمر کے قریب ایک لاکھ بچے موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔آلودگی سے دمہ،سانس کی بیمیاریاں اور امراض قلب پیدا ہوتا ہے اور ان بیماریوں میں کمی کا تعلق براہ راست گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ہیں۔فی الوقت بھارت سٹیج۔۔4گاڑیاں50پی پی ایم تک سلفر کا اخراج کرتی ہے، جبکہ بھارت سٹیج۔6گاڑیوں سے اس میں10فیصد کمی واقع ہوگی۔ بھارت سٹیج۔6،ائرو۔۔6معیار کا ہے جو کہ فی الوقت یورپی ممالک میں نافذ العمل ہیں۔جاپان اور امریکہ بھی ایرئو۔6کو اپنا رہا ہے۔ بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کا استعمال کرنے سے ہم جدید گاڑیوں کا استعمال کرنے کے میدان میں جانے جائیںگے۔ نیا ایندھن ان پرانی گاڑیوں کیلئے بھی سود مند ثابت ہوگا، جو پہلے سے استعمال میں لائی جا رہی ہے اور اس سے ماحولیاتی تحفظ کو مدد فراہم ہوگا۔ہم ایندھن کی برآمدگی پر منحصر ہے جبکہ نیا نظام ایندھن کے خرچہ میں بھی کمی لائے گا، کیونکہ اس سے ایندھن کی مسافت بھی بڑے گی۔اس تناظر میں ایندھن کی بر آمدگی میں بھی کمی آئے گی اور کچھ حد تک قیمتی بین الاقوامی زر مبادلہ بھی بچ جائے گا۔

چلینج درپیش

ملک میں کچھ وقت سے آٹو موبائل صنعت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں جبکہ ماضی عنقریب میں بھارت سٹیج۔6 میں شامل ہونے سے اس صنعت پر کافی بوجھ پڑ گیا۔ماحولیاتی ماہرین کا استفسار ہے کہ عوامی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیلی ناگریز ہے۔نئے نظام کے ساتھ جڑنے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔امسال یک اپریل سے بھارت سٹیج۔6گاڑیوں کا ہی اندراج ہوگا، جس کے نتیجے میں لاکھوں بھارت سٹیج۔4 گاڑیاں بازاروں اور شو روموں میں ایسے ہی رہیں گی۔ حکام نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان گاڑیوں کو ردی سمجھا جائے گا۔ڈیڈ لائن قریب آنے کے ساتھ ہی بیشتر لوگ بھارت سٹیج۔ 4گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

مال بردار ٹرانسپورٹ میں بڑی تعداد میں ٹرکیں شامل ہیں، جبکہ مالکان نے بھارت سٹیج۔4 کی ٹرکیں خریدنے کا سلسلہ بھی بند کیا ہے اور بھارت سٹیج۔6پر انہوں نے اپنی نظریں لگا ئی ہیں۔اس نتیجے میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بھی کافی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بھارت سٹیج۔6زمرے میں دو پہیوں والی گاڑیاں اور مسافر بردار کاریں پہلے ہی بازاروں میں آچکی ہیں،جبکہ آٹو موبائل صنعت گزشتہ ایک برس سے خود کو نئے سانچے میں ڈال رہا ہے،تاہم ابھی تک صارفین کو بھارت سٹیج۔6کی مکمل جانکاری میسر نہیں ہے۔ ماہرین ماحولیات کو یقین ہے کہ اگر مرکزی و ریاستی حکومتوں نے بھارت سٹیج۔6 معیار کی گاڑیوںکی جانکاری اور فوائدوں سے متعلق جامع مہم چلائی ہوتی تو اس وقت خریداروں کو نئی گاڑیوں کی خریداری سے متعلق خوف و خدشات لاحق نہیں ہوتے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.