وبا، افراتفری اور قحط؛ یہ تین ایسے بحران ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ملک مسلسل مشکلات میں گھرا ہوا رہتا ہے۔ عالمی وبا یعنی کورونا وائرس نے پہلے ہی دنیا میں افراتفری پھیلادی ہے۔ اقوام متحدہ ، عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر کورونا وائرس کے مسئلے سے درست طریقے سے نہیں نمٹا گیا تو عالمی سطح پر غذائی اجناس کا بحران پیدا ہوگا۔ عالمی سطح پر دو اہم اجناس گیہوں اور چاول کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے لگی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور کالا بازاری کی اطلاعات بھی آرہی ہیں، جس کی وجہ سے بازاروں میں عدم استحکام پیدا ہونے لگا ہے۔
زرعی پیداوار نہ صرف چین میں، بلکہ باقی دُنیا میں بھی کم ہوتی جارہی ہیں۔ بھارت میں بھی حکومت نے فصلوں کی پیداوار اور سپلائی کے سلسلے کو برقرار رکھنے کےلئے احتیاطی اور پیشگی اقدامات کرنے کے بارے میں باتیں کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن زمینی سطح کی حقیقت یہ ہے کہ زرعی نظام متاثر ہونے لگا ہے۔ پائین ایپل سے لیکر چائے اور پیداوری شعبے میں چھوٹے سیکٹروں کی حالت خراب ہونے لگی ہے۔ حکومت کو اس صورتحال سے نمٹنے کے فوری طور پر قلیل مدتی اور طویل المدتی امدادی اقدامات کرنے ہونگے۔ تاکہ بھارت آنے والی صورتحال سے نمٹنے کےلئے تیار ہوجائے۔
قلیل مدتی اقدامات:
(۱)۔ ہراساں کرنا اور تشدد ڈھانا بند کرو:حکام کی جانب زرعی شعبے سے جڑے لوگوں کو ہراساں کرنے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔حالانکہ اس ضمن میں حکومت ایک نوٹیفیکیشن جاری کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود پولیس زرعی سرگرمیوں سے منسوب دکانوں، جہاں بیچ اور کھاد وغیرہ فروخت کی جاتی ہے، ان سے جڑے لوگوں کو ہراساں کررہی ہے اور تشدد کا نشانہ بنارہی ہے۔اس سلسلے کو روکنے کےلئے پولیس کے نام ایک سخت انتباہ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے دیہات میں یہ سلسلہ رُک جانا چاہیے۔ کسانوں کے حق میں اور پولیس کو خبردار کرنے کےلئے وزیر اعظم مودی کی جانب سے ایک بیان جاری کیا جانا چاہیے۔
(۲)۔ کووِڈ ایگری کلچر ہیلپ لائن قائم کرنے کی ضرورت: ہمیں کسان سیل سینٹر کو ایک ’’کووِڈ 19 ریسورس سینٹر‘‘ میں تبدیل کرنا چاہیے۔ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے) آر اور اسٹیٹ ایگریکلچر یونیورسٹیوں کے سائنس دانوں کو اس ہیلپ لائن کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیے۔ تاکہ وہ کسانوں کی مدد کریں اور سماجی دوریاں بنائے رکھنے سے متعلق اُن کی رہنمائی کریں۔
(۳)۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جانکاری مہم چلانے کی ضرورت: انڈین کونسل آٖف ایگریکلچرل ریسرچ ( آئی سی اے آر) کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں، بشمول واٹس اپ کے ذریعے ویڈیو جاری کئے جانے چاہیں، جن میں کسانوں کو سماجی دوری بنائے رکھنے اور حفظان صحت کے بارے میں اقدامات کرنے کی رہنمائی کی جائے۔ اس ضمن میں رجسٹرڈ کسانوں کے ساتھ ایس ایم ایس کے ذریعے بھی رابطہ کیا جانا چاہیے۔
(۴)۔ ریلوے کو استعمال کرنے کی ضرورت: ریلوے کا ایک اہم کردار ہے۔ سب سے پہلے ریلوے کو کسانوں سے منسوب اشیا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کام شروع کرنا چاہیے، جن میں بیچ وغیرہ شامل ہے۔ ریلوے کے ذریعے فارم سیڈ کو تمام ریاستوں اور شہروں تک پہنچانا ہوگا۔ اس ضمن میں ٹرینوں کے ڈبے، اے سی اور نان اے سی دونوں کو استمعال کیا جانا چاہیے۔ تاکہ ان میں مال لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں ریلوے کو اضافی آمدنی بھی حاصل ہوگی اور اس کے نتیجے میں غذائی اجناس کی قلت کے مسئلے کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ کھیتی باڑی سے متعلق مشنری کو بھی اسی طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
(۵)۔ ریلوےکے تسلیم شدہ مزدوروں کی خدمات: ریلوے کے تسلیم شدہ مزدور مال لوڈ کرنے اور اسے ان لوڈ کرنے میں اپنی خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔
(۶)۔ ریلوے چیئرمین کا رول: ریلوے چیئرمین سیڈ کمپنیوں اور دیگر زرعی اشیا کو ڈھونے کی لاگت میں وقتی طور پر کمی کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔
(۷)۔سیڈ امدادی پیکیج: سیڈ انڈسٹری بالخصوص چھوٹی اور درمیانی درجے کی کمپنیوں کے لئے امدادی پیکیج کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ اس پیکیج میں بغیر سود یا کم شرح سود پر قرضے فراہم کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔
(۸)۔ ایگری کلچر سے جڑے شعبوں میں نئی جان پھونکنے کی ضرورت: زرعی شعبے سے جڑا سیکٹر فی الوقت منجمد ہوچکا ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے سے جڑے یونٹس کو کام شروع کرنے میں مدد فراہم کرے۔ مثال کے طور پرسیڈ انڈسٹری پیکیجنگ اور کاغذ کے یونٹس پر بھی منحص ہے۔ ان کارخانوں کو کام کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ ان کارخانوں کے ملازمین کو خصوصی انشورنس کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ممکن ہو تو انہیں خصوصی الائونس بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔
(۹)۔ منڈی مارکیٹ کو بحال کیا جانا چاہے: تمام منڈیوں اور زرعی بازاروں کو کھول دیا جانا چاہیے تاہم کوشش ہونی چاہیے کہ متعلقہ تاجر کم سے کم اسٹاف کے حامل ہوں۔
(۱۰)۔ ٹرانسپورٹ نظام کو متحرک کیا جائے: زرعی شعبے کے لئے ٹرانسپورٹ سروس بہت ضروری ہے۔ مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا صرف ٹرانسپورٹ سروس کی بدولت ہی ممکن ہے۔ تمام ضلع حکام کو ٹرک اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کرکے بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ سروس شروع کرانی چاہیے۔
(۱۱)۔ اناج جمع کرنے کےلئے دیہات کی سطح پر انفراسٹکچر قائم کرنے کی ضرورت: دیہات کی اسکول عمارتوں اور بلاک سطح کی عمارتوں کو اناج اور دیگر اشیا ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ تاکہ چھوٹے درجے کے کسان یہاں اپنا مال فراہم کرسکیں۔
طویل المدتی اقدامات:
مہاتما گاندھی نے کہا تھا، ’’ ہر گاوں کو اپنے بل پر قائم رہنے اور اپنے معاملات حل کرنے کے لائق ہونا چاہیے تاکہ وہ خود کو دنیا کے مقابلے میں اپنا دفاع کرسکے۔‘‘ ( ہری جن 28 جولائی 1946)
(۱)۔ زرعی پیداوار کو غیر مرتکز بنانا ہوگا: مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ مرکزیت کو مطلوبہ طاقت کے بغیر قائم اور محفوظ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہمارے اس وقت کے زرعی منظر نامے کے حوالے سے صادق آتی ہے۔ متحرک ٹرانسپورٹ نطام کی عدم موجودگی کی وجہ سے قحط ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس لئے یہ وقت ہمارے لئے اپنی زرعی پالیسی میں تبدیلی لانے کا ہے۔ یعنی ہمیں ایگریکلچر کی مرکزیت کو ختم کرنا ہوگا۔ چیزوں کو ایک جگہ جمع کرنا اور ’ایک ضلع میں صرف ایک فصل‘ جیسی اسکیم‘ کے بجائے ہمیں اس وقت زراعت کے حوالے سے یورپین یا سوادیشی طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی ہمیں ہر ضلع میں مختلف قسم کی اجناس کی کاشت کرنی ہوگی۔ تاکہ ہم ضلع سطحوں پر ہی مطلوبہ مقدار میں گہیوں، تیل، دالیں اور سبزیاں وغیرہ پیدا کرسکیں۔ ہر سو کلو میڑ کے دائرے میں ایک گودام اور کولڈ اسٹوریج ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ سہولت گاؤں اور بلاک کی سطح پر بھی ہونی چاہیے۔ تصور کریں جب مختلف زونز میں زرعی اشیا میس ہوں تو اس کے نتیجے میں غذائی اجناس کم از کم پانچ ماہ تک کےلئے میسر ہو گی۔ ہمیں اس وقت گاندھی جی کی ’’ولیج سواراج‘‘ سوچ کو عملانا ہوگا اور اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نافذ کرنا ہوگا۔
(۲)۔ بیج فراہم کرنے کے مراکز اور زونز: ہر ضلع میں بیچ کی پیداوار ہونی چاہے اور بلاک سطح پر این ایس سی سیڈ گودام ہونے چاہیں تاکہ مطلوبہ مقدار میں بیج میسر رہ سکے۔ اگر ہر ضلع میں ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ہر ریاست کے اندر سب زونز ہونے چاہیں، جہاں وافر مقدار میں بیج میسر ہو۔
(۳)۔ گرین زونز: قانون کی رو سے تمام بڑے شہروں میں گرین زونز ہونے چاہیں۔ جہاں کسان ایگری کلچر اور ایگرو فارسٹری کی مشق کرسکیں۔ کسانوں کو ان کئ ماحولیات دوست خدمات کے لئے معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ ان کی پیداوار کو فوری طور پر شہروں تک پہنچانے کےلئے ٹرانسپورٹ سہولیات بہم پہنچائی جانی چاہیے۔
(۴)۔ شہروں میں وافر مقدار میں غذا میسر رکھنا ہوگا: ہمیں شہروں کے اندر اور اس کے گرد نواح میں وافر مقدار میں غذائی اجناس میسر رکھنے ہونگے۔ تاکہ ٹرانسپورٹ سہولیات میسر نہ ہونے کی صورت میں اسے لوگوں تک پہنچانا زیادہ مشکل ثابت نہ ہو۔ معمول کے حالات میں کسان از خود یہ مال شہروں تک پہنچا کر اضافی آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔ بھارت کو اربن فوڈ گارڈن پالیسی اختیار کرنی ہوگی یا پھر شہروں میں اربن فوڈ گارڈنز قائم کرنے ہونگے۔ جرمنی، یورپ اور سنگاپور میں یہ طریقہ کار نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔ ضرورت پڑنے پر شہروں میں ہارٹیکلچر محکموں کو پبلک پارکس کو سبزیاں اگانے کے لئے تیار رکھنا ہوگا۔ سیڈ سپلائی ریزرو رکھنی ہوگی اور شہروں کی پارکوں کو سبزیاں اگانے کے لئے تیار کرنے اور زمین کو زرخیز بنانے کی تیاری کرنی ہوگی۔
(۵)۔ماحولیات دوست کھیتی باڑی: حکومت کو آرگینک فارمنگ پر زیادہ زور دینا چاہیے اور دیہی علاقوں میں سیڈ سیونگ کرنی چاہیے۔ دیہات میں متنوع اقسام کی فصلیں بشمول باجرا اگانے کی ضرورت ہے۔
(۶)۔ فوڈ اکو سسٹم ڈیولپ کرنے کی ضرورت: بھارت کی تمام ریاستوں کو تمام فصلوں کے لئے مطلوبہ ماحول پیدا کرنا چاہیے۔اس میں بیج پیدا کرنے والے زونز قائم کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔ جن میں گودام ،مارکیٹ اور ایگریکلچر یونیورسٹیاں بھی شامل ہوں۔ یہ سب زرعی شعبے کو غیر مرتکز بنانے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں تقسیم کاری کا عمل بھی شامل ہوگا۔ جس طرح سے مدر ڈائری یا سفال کی مقامی سطحوں پر تقسیم کاری کی جاتی ہے۔ تاکہ غذائی اجناس آسانی کے ساتھ متعلقہ شہریوں تک پہنچانا ممکن ہو۔ یہ سب کچھ اس لئے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر مسقتبل میں کبھی وبا پھوٹ پڑے تو ریاستیں اپنے طور پر ہی خود مختاری کے ساتھ معمولات کو بحال رکھنے کی پوزیشن میں ہوں۔