تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے تجویز پیش کی ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا بھارت کی معیشت، جو کرونا وائرس کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوسکتی ہے، اس میں نئی جان ڈالنے کےلئے ’’ہیلی کاپٹر منی ‘‘ کی پالیسی اختیار کرے۔
’ہیلی کاپٹر منی‘ دراصل معیشت کو سہارا دینے کا ایک ایسا نسخہ ہے، جسے ماہرین اقتصادیات پہلی بار پانچ دہائیاں قبل پیش کیا تھا۔’’ہیلی کاپٹر منی‘‘ کی اصطلاح پہلی بار سنہ 1968 میں ماہر اقتصادیات ملٹن فائر مین نے استعمال کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب معیشت پوری طرح تفریط کا شکار ہو، تو اسے سہارا دینے کا آخری نسخہ یہی ہوسکتا ہے۔ معاشی تفریط سے مراد ایک ایسی صورتحال کا رونما ہوجانا ہے، جب نقدی کی قلت کی وجہ سے اشیا کی قیمتیں بہت حد تک گر جائیں اور ان کی فراہمی رُک جائے۔
ہیلی کاپٹر منی سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کے جواب میں آر گاندھی کہتے ہیں، ’’جب حکومت معیشت کو سہارا دینے کی غرض سے وسیع پیمانے پرسماجی بہبود کے اقدامات کرتے ہوئے بے تحاشا پیسہ خرچ کرتی ہے، تو اسے ہیلی کاپٹر منی پکارا جاتا ہے۔ امریکہ کے فیڈرل ریزرو سسٹم کے سابق چیئر مین بین برنانیک بھی اس پالیسی کے حامی تھے۔ اس پالیسی کی حمایت کرنے کی وجہ سے انہیں ’ہیلی کاپٹر بین‘ بھی پکارا جانے لگا تھا۔ عام طور سے یہ اصطلاح سینٹرل بینک کے لئے استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ سینٹرل بینک کے لئے اس طرح کے پالیسی کے لیے ’کانٹی ٹیٹٰو ایزنگ( کیو ای)‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کی تشریح یہ کہ سینٹرل بینک بڑے پیمانے پر اثاثے، بانڈز اور حکومتی حصص خرید کر معشیت میں وافر مقدار میں پیسہ جھونک دے۔‘‘
تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کس طرح کے معاشی پیکیج کی بات کررہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں آر گاندھی کہتے ہیں، ’’تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ (کے سی آر) نے مالی خسارے کے تدارک کے لئے ملک کے جی ڈی پی کے پانچ فیصد پر مشتمل پیکیج کی فراہمی کی بات کی ہے۔ ملک کا جی ڈی پی فی الوقت دو سو لاکھ کروڑ روپے ہے اور اس کا پانچ فیصد دس لاکھ کروڑ روہے ہے۔ کے سی آر اس خطیر رقم پر مشتمل مالی پیکیج فراہم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ بعض دیگر لیڈروں نے تو اس سے بھی زیادہ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے مجموعی جی ڈی پی کا دس سے بارہ فیصد پر مشتمل پیکج یعنی بیس سے چوبیس لاکھ کروڑ روہے کے مالی پیکیج کی فراہمی کی بات کی ہے۔ جبکہ وزیر خزانہ نرمل سیتارامن نے گزشتہ ماہ ’وزیر اعظم غریب کلیان پکیج‘ کے تحت ایک اشارعہ سات لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔ اس کے دائرے میں ’وزیر اعظم کسان سمان ندھی‘ جیسی موجودہ اسکیموں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کیرالا جیسی ریاستوں نے مزید مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ریاستوں نے بالخصوص کسانوں کے لئے مزید مدد مانگی ہے اور نریگا جیسی اسکیموں کے تحت اضافی رقومات مختص کرنے کی مانگ کی ہے۔‘‘
ریزرو بینک آف انڈیا کس طرح سے سسٹم میں پیسہ جھونک دیتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں آر گاندھی کہتے ہیں، ’’جب بھی سینٹرل بینک معیشت کو سہارا دینے لے لئے لیے ’کانٹی ٹیٹٰو ایزنگ(کیو ای)‘‘ کا اقدام کرتا ہے تو اس کا مطلب اضافی کرنسی چھاپنا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس اقدام کے تحت صرف چھٹے حصے پر مشتمل کرنسی کو چھاپا جاتا ہے باقی پیسے کے نام پر اکائنٹس میں صرف اندارج کیا جاتا ہے۔‘‘
کرنسی کیسے چھاپی جاتی ہے اور پھر اسے کیسے تقسیم کیا جاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں آر گاندھی کہتے ہیں، ’’آر بی آئی یا کوئی سینٹرل بینک بڑی مقدار میں کرنسی چھاپنے کے بعد اسے جمع رکھتا ہے اور پھر جب نقدی کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، اتنی نقدی سسٹم میں جھونک دی جاتی ہے۔‘‘
ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک اور سابق افسر نے بھی اس موضوع پر ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کی۔ اس افسر سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ آر بی آئی یہ فیصلہ کیسے کرپاتی ہے کہ کس تعداد میں کرنسی چھاپنی ہے؟ تو انہوں نے کہا،’’ آر بی آئی پیش کردہ جی ڈی پی کی بڑھوتری کا جائزہ لینے کے بعد طے شدہ شرح کے مطابق کرنسی چھپانے کی مقدار کا تعین کرتا ہے۔‘‘
اس وقت معیشت میں کتنی کرنسی موجود ہے؟
اس سوال کے جواب میں مذکورہ افسر نے بتایا، ’’مارچ 2020 تک ہمارے سسٹم میں چوبیس اشارعہ انتالیس لاکھ کروڑ روپے کی کرنسی کی موجودگی کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ یہ ملک کے جی ڈی پی (جاریہ مالی سال کے لئے ۲۰۴لاکھ کروڑ) کا بارہ فیصد ہے۔ مرکزی بجٹ میں وزیر خزانہ نرمل سیتارامن نے اس مالی سال میں جی ڈی پی میں کم از کم دس فیصد کی بڑھوتری کا تخمینہ لگایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مالی سال کے اختتام تک ہمارے جی ڈی پی کا حجم بائیس اشارعہ پانچ لاکھ کروڑ روپے ہوگا۔
مالی نظام میں کس تعداد میں کرنسی جھونک دینی ہے، یہ فیصلہ کرتے وقت ریزرو بینک آف انڈیا کئی پہلووں کو زیر غور رکھتا ہے۔ یعنی وہ یہ دیکھتا ہے کہ ڈیجٹل ادائیگی میں کتنی بڑھوتری ہوگئی ہے ،نقدی کس مقدار میں استمعال کی جاتی ہے، حکومت کی کیا پالیسیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان ساری باتوں کو پیش نظر رکھنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مالی نظام میں مزید کتنی کرنسی جھونک دینی ہے۔‘‘
کیا آر بی آئی اپنی من مرضی کے مطابق کرنسی نہیں چھاپ سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں مذکورہ افسر نے بتایا، ’’بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرکزی سرکار یا آر بی آئی بہت سارا پیسہ پرنٹ کرسکتی ہے اور پھر اس کرنسی کو تقسیم بھی کرسکتی ہے۔ لیکن حقیقت میں معاشی نظام ایسے نہیں چلتا ہے۔ مثال کے طور پر لاطینی، امریکی اور افریقی ممالک نے جب اضافی کرنسی چھاپی تھی اور پھر اسے معاشی نظام میں جھونک دیا تھا تو اسکے نتیجے میں افراط زر میں اضافہ ہوگیا تھا اور پیسے کی قدر میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ اسی طرح زمبا بوئے کی سرکار نے بھی سال 2007 اور 2009 کے درمیان بڑی مقدار میں کرنسی چھاپی تھی۔ اس کے نتیجے میں ملک کی کرنسی کی قیمت گھٹ گئی تھی۔ بلکہ شدید افراط زر کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ زمبابوے کو ایک سو ٹرلین ڈالر نوٹ چھاپنے پڑتے تھے اور اس کی قیمت محض چالیس امریکی سینٹ تھا۔ یعنی زمبابوے نے اندھا دھند نوٹ چھاپے جبکہ اس کے مقابلے میں آمدنی کچھ بھی نہیں تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ یہاں دوسرے ملکوں کی کرنسی کا استعمال کیا جارہا ہے۔
اضافی کرنسی چھاپنے کے نتائج کے حوالے سے آر گاندھی نے بتایا کہ زمبابوے کی مثال تو بدترین ہے لیکن کئی دیگر مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ اس بارے میں کئی مثالیں ہیں۔ بعض لاطینی امریکی ممالک اور کئی افریقی ممالک میں دو سو سے تین سو فیصد تک بلکہ کئی جگہوں پر پانچ سو فیصد تک افراط زر دیکھنے کو ملا۔ بے تحاشا کرنسی چھاپ کر ان ممالک نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی۔
آر بی آئی کس طرح سے بڑھوتری اور افراط زر میں تناسب پیدا کرتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں آر گاندھی نے کہا، ’’جب بھی سینٹرل بینک نقدی کی سپلائی بڑھاتا ہے تو اس کے نتیجے میں افراط زر بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور سے سینٹرل بینک اضافی نقدی فراہم نہیں کرتا ہے ۔ حالانکہ سیاستدان اس کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ ریزرو بینک پہلے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیتا ہے اور اسکے بعد یہ طے کرتا ہے کہ اضافی نقدی معیشت میں جھونک دینے کے نتیجے میں جو افراط زر پیدا ہوگا، کیا اسے منیج کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اگر اسے لگے کہ اس اقدام سے بڑے پیمانے پر افراط زر ہوگا تو وہ ہر گز اضافی کرنسی معیشت نہیں جھونکے گا۔‘
دور حاضر کے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ نظام زر سے متعلق پالیسی کو حکومت کے اثر سے جدا رکھا جانا چاہیے۔ نظام زر سے متعلق ایک شفاف پالیسی مرتب کرنا ایک دشور گزار کام ہے۔ کیونکہ نظام زر کی ایک کامیاب پالیسی کے لئے ملک کی کرنسی، افراط زر، بے روزگاری اور معاشی بڑھوتری جیسے پہلووں کو زیر غور رکھنا پڑتا ہے ۔ اسی لئے ترقی یافتہ معیشتوں میں سینٹرل بینکوں پر سیاسی اثر و رسوخ حاوی نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔ تاہم کئی بار حکومتیں معاشی بڑھوتری کے مقصد سے سینٹرل بینکوں کو شرح سود کم کرتے ہوئے وافر مقدار میں پسیہ سپلائی کرنے کا اصرار کرتی ہیں۔ بھارت میں آر بی آئی کے گورنرز اور وزارت خزانہ کے درمیان عمومی طور پر شرح سود کم کرنے کے معاملے پر ان بن دیکھنے کو ملتی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آر بی آئی کے دو سابق گورنرز رگھورام راجن اور اُرجیت پاٹل نے اپنے عہدے اس وجہ سے چھوڑ دیئے تھے کیونکہ وہ حکومت کی جانب سے شرح سود میں کمی کرنے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔
اس سال مارچ میں امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی فیڈرل ریزرو سسٹم سے کھلے عام مطالبہ کیا کہ وہ معاشی سرگرمیوں کو اسپورٹ کرنے کےلئے شرح سود صفر یا منفی کردے۔
جب ای ٹی وی بھارت نے آر گاندھی سے پوچھا کہ کیا آر بی آئی سے اثاثوں کے بدلے میں رقومات لی جاسکتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا، ’’جب ریزرو بینک مزید پیسہ پیدا کرتا تو اس کے بدلے میں اثاثے میسر ہونے چاہیں۔ یہ اثاثے حکومت ہند کی ضمانت کی صورت میں بھی ہوسکتے ہیں یا پھر وہ ان اثاثوں کو بازار سے بھی اس پیسے کے عوض خرید سکتی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ بیرونی ممالک میں ’’کوانٹی ٹیٹیو ایزنگ ‘‘ کیسے کی جاتی ہے؟ آر گاندھی نے کہا، ’’سال 2007 اور 2008 کے عالمی مالی بحران کے بعد امریکہ اور یورپین سینٹرل بینکوں نے بڑے پیمانے میں اپنے ممالک میں اثاثے خرید لئے۔ اس کا مقصد بازاروں میں اقتصادی سرگرمیوں کو سپورٹ کرنے کے لئے وافر مقدار میں پیسہ جھونکنا تھا۔
سال 2008 کے عالمی مالی بحران کے بعد امریکی فیڈرل ریزرو سسٹم نے دو ٹریلین ڈالر کے عوض ضمانتیں حاصل کرتے ہوئے اکتوبر 2014 تک اپنے بیلنس شیٹ کو چار اشارعہ چار ٹرلین ڈالر تک قائم کیا۔ انسانی تاریخ میں یہ سب سے بڑا مالی پیکیج تھا۔
دُنیا کی تیسری بڑی معیشت جاپان نے گزشتہ دو دہائیوں سے تفریط کا شکار ہے۔ بینک آف جاپان کی پالیسی کے نتیجے میں حکومت کی کوئی مدد نہیں ہورہی ہے۔ حالانکہ یہاں صفر فیصد شرح سود ہے۔ آر گاندھی کا کہنا ہے کہ ’’جاپان میں لوگ بہت پیسہ بچت کرتے ہیں اور اسکے نتیجے میں ملک میں تفریط زر کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘