نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ (21-2020) پیش کرتے ہوئے کہا کہ زرعی شعبے نے کووِڈ 19 کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے وقت بھی اپنی حصولیابی اور لچیلے پن کو ثابت کیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبہ اور متعلقہ سرگرمیوں نے سنہ 21-2020 (پہلے پیشگی تخمینہ) کے دوران مستقل قیمتوں پر 3.4 فیصد کا اضافہ درج کیا۔
انہوں نے کہا کہ چیف اسٹیٹسٹک افسر(شماریات) کی جانب سے گذشتہ برس 29 مئی کو پیش کیے گئے قومی آمدنی سے متعلق اعداد و شمار کی بنیاد پر اقتصادی جائزے کے مطابق 20-2019 میں ملک کے مجموعی ویلیو ایڈڈ (جی وی اے) میں زراعت اور متعلقہ سرگرمیوں کی حصہ داری 17.8 فیصد ہے۔
سنہ 20-2019 میں زرعی شعبے کا اقتصادی جائزہ (چوتھے پیشگی تخمینہ) کے مطابق ملک میں 29 کروڑ 66 لاکھ 50 ہزار ٹن اشیائے خوردنی کی پیداوار ہوئی جبکہ 19-2018 میں 28 کروڑ 52 لاکھ 10 ہزار ٹن اشیائے خوردنی کی پیداوار ہوئی تھی۔ اس طرح موجودہ سیشن میں ایک کروڑ 14 لاکھ 40 ہزار ٹن سے زیادہ اشیائے خوردنی کی پیداوار ہوئی ہے۔
سنہ 20-2019 کے اقتصادی جائزہ کے مطابق بھارت کی زراعت اور متعلقہ اشیاء برآمد تقریباً 252 ہزار کروڑ روپے کی ہوئی۔ بھارت سے سب سے زیاہ برآمد امریکہ، سعودی عرب، ایران، نیپال اور بنگلہ دیش کو کیا گیا۔
بھارت کی جانب سے دوسرے ممالک کو بھیجی جانے والی اہم اشیاء میں مچھلیاں اور سمندری اشیاء، باسمتی چاول، بھینس کا گوشت، مسالے، عام چاول، خام کپاس، تیل، چینی، ارنڈی کا تیل اور چائے پتی شامل ہیں۔
زراعت پر مبنی اور متعلقہ اشیاء کی برآمد میں بھارت عالمی سطح پر صف اول میں ہے۔ اس شعبے میں دنیا کا تقریباً 2.5 فیصد برآمد بھارت سے ہی کیا جاتا ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق سنہ 19-2018 کے بجٹ میں فصلوں کی ایم ایس پی فصل کی حقیقی لاگت کا ڈیڑھ گنا رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی نظریے پر کام کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے 21-2020 سیشن میں خریف اور ربیع کی فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) میں اضافہ کیا گیا ہے۔
حالیہ زرعی اصلاحات پر اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ تین نئے زرعی قوانین کو چھوٹے اور متوسط کسانوں کا زیادہ فائدہ یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایسے کسانوں کی تعداد ملک کے کل کسانوں کی 85 فیصد ہے اور ان کی فصلیں اے پی ایم سی مبنی بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں۔ نئے زرعی قوانین کے نافذ ہونے سے کسانوں کو بازار کی پابندیوں سے آزادی ملے گی اور زرعی شعبے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
اقتصادی جائزے کےمطابق 'آتم نربھر بھارت ابھیان' کے تحت زراعت اور فوڈ مینیجمنٹ سیکٹر میں کئی بڑے اعلانات کیے گئے ہیں۔ زرعی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ کروڑ روپے کی رقم یقینی بنائی گئی ہے۔
مائیکرو فوڈ پروسیسنگ (ایم ایف ای) کے قیام کے لیے 10 ہزار کروڑ روپے کا منصوبہ کیا گیا۔ پردھان منتری متسیہ سنپدا یوجنا، 'ماہی پروری' (پی ایم ایم ایس وائی) کے قیام کے لیے 10 ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
قومی مویشی امراض کنٹرول پروگرام اور مویشی پروری ڈھانچہ تعمیر کی ترقی کے لیے 15 ہزار کروڑ روپے کا اعلان کیا گیا۔ ان کے علاوہ ضروری اشیاء ایکٹ اور زرعی پیداوار کی قیمت اور معیار، پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا اور ایک ملک ایک راشن کارڈ جیسے منصوبے شروع کیے گئے۔
اقتصادی جائزے کے مطابق بھارت میں چھوٹے اور متوسط درجے کے کسانوں کو بڑے پیمانے پر مالی امداد مہیا کروائی گئی ہے۔ کسانوں کی کھیتی سے متعلق سرگرمیوں کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لیے وقت پر قرض کی حصولیابی کو اہمیت دی گئی۔
سنہ 20-2019 میں 13 لاکھ 50 ہزار کروڑ روپے کا زرعی قرض متعین کیا گیا تھا جبکہ کسانوں کو13 لاکھ 92 469 ہزار کروڑ روپے کا قرض مہیا کیا گیا جو کہ متعینہ حد سے کافی زیادہ تھا۔ 21-2020 میں 15 لاکھ کروڑ روپے کا قرض مہیا کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
نومبر 2020 تک 9 لاکھ 73 ہزار 517 کروڑ روپے کا قرض کسانوں کو مہیا کروایا گیا۔ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ آتم نِربھر بھارت ابھیان' کے ایک حصے کے بطور زرعی ڈھانچے کی تعمیر فنڈ کے تحت دی جانے والی قرض زرعی شعبے کو مزید فائدہ پہنچائے گا۔
پردھان منتری آتم نربھر بھارت پیکیج کے حصے کے بطور ڈیڑھ کروڑ دودھ ڈیری پیداوار اور دودھ کی کمپنیوں کو کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی) حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق وسطی جنوری 2021 تک کل 44 ہزار 673 مچھلی پالنے والوں کو 4.04 لاکھ درخواست بینکوں میں کارڈ دینے کا عمل مختلف مرحلوں میں ہے۔
اقتصادی جائزے کے مطابق وزیراعظم فصل بیمہ منصوبہ (پی ایم ایف بی وائی) میل کا پتھر ثابت ہوئی ہے۔ اس میں ملک کے کسانوں کو کم از کم پریمیم رقم پر فصلوں کا بیمہ مہیا کیا جاتا ہے۔ پی ایم ایف بی وائی کے تحت سال در سال 5.5 کروڑ سے زیادہ درخواست کو منظور کرکے کسانوں کو منصوبے کا فائدہ دیا جا تا ہے۔
اس منصوبے کے تحت 12 جنوری 2021 تک 90 ہزار کروڑ روپے کے دعوے کی ادائیگی کی گئی ہے۔ آدھار کی وجہ سے کسانوں کو تیزی سے ادائیگی ہوئی اور دعوے کی رقم براہ راست ان کے بینک کھاتوں میں پہنچائی گئی ہے۔
موجودہ کووِڈ 19 وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے باوجود 70 لاکھ کسانوں کو اس منصوبے کا فائدہ ملا ہے اور مستحقین کے بینک کھاتوں میں 8741.30 کروڑ روپے کے دعوؤں کی ادائیگی کی گئی ہے۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کسان منصوبہ کے تحت دی جانے والی مالی امداد کی ساتویں قسط کے بطور دسمبر 2020 میں ملک کے نو کروڑ کسان خاندانوں کے بینک کھاتوں میں 18 ہزار کروڑ روپے کی رقم تقسیم کی گئی۔
مویشی شعبے کی اقتصادی سروے کے مطابق 15-2014 کے مقابلے 19-2018 میں مویشی شعبے میں مشترکہ سالانہ شرح نمو کی بنیاد پر 8.24 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔
زرعی شعبے اور متعلقہ سرگرمیوں والے شعبوں کے گراس ویلیو ایڈیشن پر مبنی نیشنل اکاؤنٹس اسٹیٹکس (این اے ایس) 2020 کے مطابق مویشی کی حصہ داری میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گراس ویلیو ایڈیشن میں (مستقل قیمت پر) مویشی کی حصہ داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 15-2014 میں یہ 24.32 فیصد تھا جبکہ 19-2018 میں 28.63 فیصد درج کیا گیا۔ 19-2018 کے گراس ویلیو ایڈیشن میں مویشی کی حصہ داری 4.19 فیصد ہے۔
اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی مچھلی پیداوار تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ رہی ہے۔ 20-2019 میں ایک کروڑ 41 لاکھ 60 ہزار ٹن مچھلی پیدا کی گئی۔ اس کے علاوہ قومی معیشت نے مچھلی کے شعبے میں 2 لاکھ 12 ہزار 915 کروڑ روپے کی حصہ داری درج کی ہے۔ یہ کل قومی گراس ویلیو ایڈیشن کا 1.24 فیصد اور زرعی شعبے کے گراس ویلیو ایڈیشن کا 7.28 فیصد ہے۔