سنہ 2019 ایک ایسا سال گذرا کہ جس کے ہر کوارٹر ( سہ ماہی) میں اقتصادی ترقی کا تنزل ہوتا رہا۔ سال کے آخری دن حکومت نے اگلے پانچ سال میں بنیادی ڈھانچہ میں 102.51، ٹرلین روپے کی سرمایہ کاری کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ سرکار نے یہ اقدام ایسے وقت پر کیا ہے کہ جب مارچ2020 ء تک تین سال میں اقتصادی ترقی میں لگاتار گراوٹ ہوتی آئی ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار ( جی ڈی پی) جو 2016ء میں 8.2 فیصد سے ترقی کررہی تھی گرتے گرتے اگلے برس 7.2 اور پھر گیے سال6.8، فیصد تک آگئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب اس میں چونکا دینے والی مزید 1.8 فیصد گرواٹ ہے اور اس سال اسکے 5 فیصد تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔
حکومت بلا شبہ اس گراوٹ کو روکنے کے لیے شدید دباؤ میں ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت سڑکوں، بجلی، مکانات، آب پاشی اور دیگر طرح کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری بڑھانا چاہتی ہے۔ یہ سب وزیر اعظم کی 5 ٹرلین اکانومی ( معیشت) جسکا انہوں نے گذشتہ برس اعلان کیا تھا ان کی کے سنہ 2025 مقرر کیا تھا۔ کیا بنیادی ڈھانچے کو بڑھاوا دینے سے ترقی، روزگار اور بھاری سرمایہ کاری کے دائرے کو وسعت مل سکے گی؟
بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کا نسخہ دنیا کے مختلف ممالک نے مشکل میں پھنسنے پر آزمایا ہوا ہے۔ تازہ مثال جنوبی کوریا کی ہے جو کاروبار پر انحصار کرنے والا ایک ملک ہے اور جسے گذشتہ برس چین-امریکہ چپقلش کی وجہ سے بڑے دھچکے لگے ہیں۔ چناچہ سپلائی میں رکاوٹیں آنے کی وجہ سے جنوبی کوریا کی درآمدات میں رکاوٹیں آئیں ،آمدنی کم ہوئی اور نتیجتاً اقتصادی ترقی کمزور پڑ گئی۔ ملک کے صدر مون جے اِن نے حال ہی میں نجی سیکٹر میں سرگرمیوں کو بڑھاوادینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے بنیادی ڈھانچے میں 51 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی سرمایہ کاری سے تازہ مواقع پیدا ہوتے ہیں،نجی کاروباریوں میں رغبت بڑھتی ہے اور اقتصادی سرگرمیوں کو استحکام ملتا ہے اور باالآخر مجموعی مطالبہ، ایک عمل جسے کینسین اکانومک تھیوری کے مطابق ضارب کہا جاتا ہے، بلند ہونے لگتا ہے۔
اس روشنی میں دیکھا جائے تو بھارت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کے منصوبے میں، جو ترقی میں 11 سالہ گراوٹ اور غیر یقینی مستقبل کے چلتے بنایا جارہا ہے، کوئی برائی نہیں ہے۔ حالانکہ ابھی صورتحال یہ ہے کہ بعض لوگ ترقی کی رفتار کو زمین پر پڑا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا اس سے کوئی نچلی سطح بھی ہوسکتی ہے کیا۔ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری آگے بڑھنے والی ہوگی۔ سرکار کی تجویز ہے کہ اگلے سال اسے 6.2 ٹرلین سے بڑھا کر اگلے سال19.5 ٹرلین کیا جائے اور پھر 2021-22ء میں 19 ٹرلین روپے لگائے جائیں جسکے بعد اسے اعتدال پر لاتے ہوئے اگلے تین سال کیلئے2024-25ء تک بالترتیب 13.5 ٹرلین روپے12.5 ٹرلین روپے اور 11 ٹرلین روپے کیا جائے گا۔ قریب دو پانچواں حصہ یا 80 فیصد سڑکوں، شہری اور مکانات، ریلویز، بجلی اور آبپاشی کے شعبوں پر لگایا جائے گا۔ مرکز اور ریاستی سرکاریں برابر حصہ داری کے ساتھ78 فیصد رِسک اٹھائیں گی جبکہ نجی سیکٹرز کا یہ حصہ 22 فیصد ہوگا۔ نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی)میں2020-2025ء کے درمیان ممکن اور قابل عمل منصوبوں کو رکھا گیا ہے جبکہ کئی منصوبے پہلے ہی زیرِ نفاذ ہیں۔
اس فروغ کیا گذشتہ پانچ سال میں اسی طرح کے خرچے کے ساتھ کس طرح مقابہ ہوسکتا ہے؟یہ ایک جانی مانی بات ہے کہ مودی حکومت (اول)نے نمایاں طورپر،2014-15ء میں، سڑکوں،شاہراؤں، مکانات، شہری ترقی، ڈیجیٹل اور دیگر ڈھانچوں میں پیسہ لگایا۔ این آئی پی رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق مرکزی حکومت نے2017-18ء میں 2.3گنا بڑھا کر اخراجات کومجموعی گھریلو پیداوار کے حصہ کے بطور 3.9 ٹرلین روپے تک پہنچایا۔ اس مدت میں یہ بڑھوتری 1.4 فیصد سے2.3 فیصد تک تھی۔گئے سال یا2018-19ء میں مرکزی حکومت نے بنیادی ڈھانچہ پر 3.8 ٹرلین روپے خرچ کیے۔ اسکے برعکس این آئی پی کے تحت اگلے سال4.6 فیصد خرچ کیے جانے ہیں جو کہ سال2020-21ء کے لیے پلان کیے گئے کل 19.5 ٹرلین روپے کا 24 فیصد بنتا ہے۔ اگلے دو سال میں مرکز کے بڑھنے والے اخراجات ایک ٹرلین روپے کے نیچے ہیں جبکہ اسکا حصہ مالی سال2024 -25 ء میں بڑھنے والا ہے کہ جب کہ پہلے تین سال میں ریاستیں اپنا بھاری حصہ ڈالیں گی۔
طلب کے فروغ کے نقطۂ نگاہ سے، یعنی جو موقف میکرو اکانومک پالسیز (یہاں اسکا مطلب مالی پالسی ہے) بنانے کی ذمہ دار مرکزی حکومت کی ہے، اس میں کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے؟
گذشتہ پانچ برس کا تجربہ بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں رہا ہے۔ بھارت میں بنیادی ڈھانچے میں کل سرمایہ کاری 2013-14ء میں 6.3 ٹرلین سے بڑھ کر 2017-19ءکے دو سال میں 10 ٹرلین تک بڑھ گئی ہے۔ آخرالذکر بڑھوتری کا بیشترمرکزی سرکارکے ، جسکی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری گذشتہ دو سال میں 4 ٹرلین روپے تک بڑھی، قریب دوگنا ہوئے اخراجات سے ہوئی۔ مودی (اول)کی مرکزی سرکارکے پہلے تین سال کی کل سرمایہ کاری25 فیصد سے کم سے 13 فیصد اچھل کر 38 فیصد تک پہنچ گئی۔
اقتصادی ترقی کے نتائج کیا رہے ہیں؟بدقسمتی سے توقعات کے برعکس رہے جیسا کہ اوپر کہا گیا اصلی جی ڈی پی ترقی 2017-18میں دھیمی پڑھ گئی اور 2018-19میں مزید گر گئی جبکہ اب کے اسکے5 فیصد یامختلف تخمینوں کے مطابق اس سے بھی کم تک گرنے کا اندازہ ہے۔
اگر ہم روزگارکی جانب دیکھیں این ایس ایس او کی متواتر مزدور سروے 2017-18 ،جسے شروعات میں روک دیا گیا تھا اور پھر گئے مئی کے آخر میں جاری کیا گیا، میں پایا گیا ہے کہ گذشتہ چالیس سال میں بیروزگاری کی شرح ،2017-18میں 6.1 فیصد کے ساتھ،سب سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ایک نجی شماریات ایجنسی سی ایم آئی ای کا لگایا ہوا تخمینہ بھی یہی تصویر دکھاتا ہے۔کاروباریوں اور صارفین کا اعتماد، جسکی بنیاد پر اخراجات سے متعلق فیصلے لیے جاتے ہیں، بھی اسکی نچلی سطح تک گرچکا ہے۔ درآمدات کی ترقی،جو عالمی سطح پر مقابلے کی صلاحیت کا پیمانہ ہے، بھی اس سال 2 فیصد تک سکڑتے دکھائی دے رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ کی ترقی بھی 5 فیصد نیچے آگئی ہے۔ آخرالذکر رجحان کو این آئی پی کے اضافی ہدف، جو بھارت کی مقابلہ جاتی صلاحیت باالخصوص مینوفیکچرنگ کے حوالے سے بڑھانا ہے، کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔
یہ کارکردگی حوصلہ افزا نہیں ہے حالانکہ خلافِ توقع نتائج کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ مثال کے بطور بڑھے ہو اور خراب شدہ برے قرضے، بنکوں کے قرضہ دینے پر آمادہ نہ ہونے، این بی ایف سی بحران جس سے کریڈٹ کرنچ پیدا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان چیزوں نے غالباَ ضارب کو دبا دیا ہے، سرمایہ کاری پر متوقع اثرات کو روک دیا اور روزگار و آمدن کیلئے مسائل پیدا کیے۔
دوسری جانب حقائق سے برعکس منظرنامہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی امداد کو چھوڑ کر ترقی کی شرح مزید کم ہوسکتی تھی۔ چناچہ ایسے منصوبوں میں تعمیراتی عنصر60 سے80 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ تعمیراتی سیکٹر بھارت میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے سب سے بڑا سیکٹر ہے لیکن اسکی رفتار تیزی کے ساتھ کم ہوتی آرہی ہے یہاں تک کہ جنوری 7 کو پیشگی جاری کیے گئے جی ڈی پی ڈاٹا کے مطابق اس سال یہ شرح3.2 فیصد تک آگئی ہے۔ جبکہ ایک سال قبل یہ 8.7؍فیصد بڑھ گئی تھی۔2017-19ء کی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے بغیر تو تعمیرات کی ترقی میں ہوئی تنزلی کی اور بھی خراب تصویر سامنے آسکتی ہے۔
انفراسٹرکچر میں بڑھائی گئی سرمایہ کاری سے توقعات بڑھ سکتی ہیں۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تازہ سرمایہ کاری کا انجکشن کئے بغیر اقتصادی ترقی آگے چل کر مزید تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔
رینو کوہلی نئی دلی میں مقیم ایک مائیکرو اکانومسٹ ہیں۔