مویشی پالن سے وابستہ لوگ مناسب شرح سے محروم
مویشی پالن یا ڈیری فارمنگ اور دودھ کی صنعت کو زراعت کی دو آنکھیں سمجھا جاتا ہے۔قدرتی آفات سے فصلوں کو ہوئے نقصان کو عام طور پر زرعی پیداوار سے ہوئی آمدن سے برابر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ مویشی پالن سے وابستہ کسان کو کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ایک کسان جو بھینس اور دودھ دینے والے جانور پالتا ہو اْسے تب بھی تین وقت کی روٹی آرام سے حاصل ہو سکتی ہے جب اْسے مناسب فصل حاصل نہ ہوئی ہو۔
بدقسمتی سے کئی وجوہات کی بناء پر کاشتکاری سے وابستہ جو خاندان مویشی پالن سے دور ہو رہے ہیں وہ معاشی طور پر افسردہ ہونا شروع ہورہے ہیں۔چینی کی صنعت اور گنّاکسان بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں جو اس صنعت کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔کیا بھارت کی دودھ کی صنعت جو ایک وقت میں عالمی پیداوار میں سرفہرست تھی اب اسے بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟
آج ڈیری کا شعبہ 'کسانوں کی دی جانے والی مراعات میں کمی، ڈیری کسانوں کی مشکلات کو نظر انداز کرنے کا رجحان، ڈیری فارمنگ میں غیر صحتمند مْقابلہ، دودھ کی پیداوار اور اس کی قیمتوں میں اعتدال کی کی کمی اور برآمدات میں اضافہ ' جیسے مثائل سے دوچار ہے۔
قیمتوں میں استحکام کی اْمید
ملک کے کئی حصوں میں اضافہ ہوتے ہوئے درجہ حرارت، مانسون میں تاخیر، پانی کی رسائی کے فْقدان اور کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے مویشیوں کی صحت پر منفی اثر پڑا ہے، جبکہ، مکّی اور گنّے کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ساتھ ہی جانوروں کے چارے میں بھی سبز چارے کی کمی کی وجہ سے خاصااضافہ درج ہوا ہے۔ان وجوہات کی بناء پر دودھ کی پیداوار میں کمی واقعہ ہوئی ہے۔
ایک سروے کے مْطابق صورتحال میں بتدریج بہتری آسکتی ہے اور دسمبر مہینے تک پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ایسا خریف سیزن کے اختتام تک کثرت سے ہوئی بارش کی وجہ سے ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے مختلف ریاستوں کے آبی ذخائر میں تقریباً41فیصد تک اضافہ ہوگاجو گذشتہ دس سال میں سطحِ آب میں درج ہوا سب سے بڑا اضافہ ہوگا ۔
ربیع سیزن کے دوران سبز چارے کے بڑے پیمانے پر دستیابی کی وجہ سے مرغی پالن کے پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔ رپورٹ میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ اس پیشرفت کی وجہ سے دودھ کی قیمتوں میں بھی استحکام آ سکتا ہے۔ ڈیری کے شعبے سے وابستہ ملک کے کسان گزشتہ سال کے دوران دودھ کی قیمتوں میں اضافہ لانے کے لئے تگ و دو میں لگے تھے۔
نجی ڈیری فارموں سے مْقابلہ کرنے کے لئے امول اور مدر ڈیری جیسی فرموں نے دودھ کی پرچون قیمتوں میں دو سے لے کر تین روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے ۔اِمسال جنوری کے اواخر تک بیشتر نجی ڈیریوں نے دودھ کی پرچون قیمتوں میں دو بار 5روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے۔دسمبر کے مہینے میں کئی نجی ڈیریوں نے اعلان کیا کہ صارفین پر بڑھتی ہوئی قیمتوں بوجھ صرف اس لئے ڈالا جا رہا ہے کہ ڈیری فارم مالکان کا معاشی استحکام بحال ہو۔
رواں سال کے دوران جنوری مہینے میں ایک بار پھر اضافہ کیا گیا کیونکہ بہت ساری کواپریٹیو ڈیر یوں کے فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ساتھ ہی ڈیری فارموں سے دودھ اکٹھا کرنے کے لئے جو ادایئگی کی جا رہی ہے اْس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس کے نتیجے میں کسانوں کو کوئی مدد نہیں مل پا رہی ہے۔
چارے اور گھاس کی قیمتوں میں اضافہ بھی ڈیری فارمنگ سے وابستہ کسانوں کی معاشی بدحالی کے لئے ذمہ دار وجہ بن گیا ہے۔ دوسری طرف مسابقتی پرایئویٹ ڈیریاں دودھ فراہم کرنے والے کسانوں کو بہتر قیمت دینے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ تاہم جیسے جیسے دودھ کے پیداوار میں کمی آرہی ہے ویسے ویسے قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر کے عوام کے کاندھوں پرمالی بوجھ بڑھا رہی ہیں۔
تلنگانہ کی وجیا ڈیری نے دسمبر مہینے میں دودھ کی قیمت میں دو اور جنوری میں تین روپے کا اضافہ کر کے ایک لیٹر دودھ کی قیمت 47روپے تک پہنچا دی۔ چونکہ مد مْقابل ڈیری فرموں کے دودھ کے قیمت فروخت میں صرف ایک روپے کا فرق ہے وجیا ڈیری کی مصنوعات کی فروخت 3.12لاکھ لیٹر سے کم ہوکر 2.15لاکھ لیٹر تک گر گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دیگر ڈیریوں سے 36لاکھ لیٹر دودھ فروخت کیا جا رہا ہے۔موسم گرما میں صورتحال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔دوسری بات جو قابلِ تشویش ہے وہ یہ کہ دودھ کی پاؤڈر کے ذخائر بھی کم ہوئے ہیں ۔اگرچہ حکومت نے ڈیری فارمنگ کو فروغ دینے کے لئے کئی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات کئے ہیں، جیسے کہ 4روپے فی لیٹر کا ا ضافی قیمت،سبسڈی پر 65 ہزار جانوروں کی فراہمی وغیرہ۔ لیکن وجیا ڈیری کے مطابق دودھ جمع کرنے کے رجحان میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
اگرچہ فی الوقت ملک میں دودھ کی پیداوار 50کروڑ لیٹر سے زائد ہے تاہم درکار سپلائی میں اب بھی 50لاکھ لیٹر کی کمی ہے۔ایسے میں کچھ کمپنیوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دودھ کی پاؤڈر درآمد کرنے کے لئے اجازت مانگی ہے ۔تاہم امول اور کے ایم ایف اس کی مْخالفت کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں درآمد کی اجازت دی گئی تو اس سے ملک کے کسانوں کا نْقصان ہوگا
دیگر منفی رجحان یہ ہے کہ جب ملک میں دودھ کی پیداوار کم ہو جاتی ہے تو کافی نجی ڈیریاں کسانوں کو مناسب قیمت ادا کئے بغیر دودھ کی پاؤڈر خرید لیتے ہیں۔دودھ کی پاؤڈر کو دراصل پانی ملا کر دودھ میں تبدیل کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔امول جیسی ڈائریوں کا دعویٰ ہے کہ نجی ڈیریاں اسی مقصد سے دودھ پاؤڈر درآمد کرتی ہیں تاہم بہت سارے نجی ڈیری مالکان کا الزام ہے کہ گجرات میں دودھ کی پاؤڈر کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔
سال 2018-19میں دودھ کی اضافی پیداوار کے بعد زیادہ تر ڈیری مالکان نے دودھ کو خشک کر کے پاؤڈر میں تبدیل کیا اور مْستقبل میں استعمال کے لئے ذخیرہ کیا ہے۔رواں مالی سال کے ابتداء میں دودھ کی پیداوار میں کمی کے نتیجے میں کچھ نجی ڈیریوں نے دوددھ کی قلت کا اظہار کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا ہے تاہم انہوں نے کسانوں کو معاون قیمتیں ادا کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ یہ بھی تصور کیا جا رہا ہے کہ ایسی صورتحال میں کچھ ڈیریاں دودھ کی پاؤڈر اور کم قیمتوں پر فروخت کر کے منافع کما رہے ہیں۔ڈیری شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق گذشتہ چار مہینے کے دوران دودھ کی قیمتوں میں لگاتار اضافے سے ہوتی ہے۔
پیداور بڑھانے کے لئے سبسڈی
دودھ کی پیداوار پر ہوئے خرچ کی مناسبت سے قیمت واپس نہ ملنے کی وجہ سے کسان کئی بار جانوروں کے حفظان صحت پر توجہ دیتے اوراْنہیں معیاری چارہ کھلانے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے جانور مر جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو مویشی پالن سے جْڑے تھے اب درپیش کئی مشکلات کی وجہ سے اب اس شعبے سے کنارہ کش ہو رہے ہیں ۔مثلاًجیسے کہ د ودھ کی پیداوار لاگت کا ایک تہائی قیمت کا حصول، مزدوری پر بڑھتی ہوئی مزدوری، مصنوعی تخم روزی کی سہولیات کا فقدان اور بنیادی سہولیات کا فْقدان۔ان میں سے بیشتر جدید ٹیکنولوجی کے بْنیادی نکات نہ سمجھ پانے کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔
ڈیری فارم مالکان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالات میں تبھی بہتری آسکتی ہے اگر ڈیری فارمز کومْراعات دی جایئں تاکہ وہ با زار میں ان ڈیری کی مصنوعات کو فروخت میں اضافہ کریں جن کا مطالبہ زیادہ ہے۔کسان جانوروں کی ایسی نسل کا انتخاب کریں جو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو برداشت کر سکیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کی تعداد میں اضافہ کریں تاکہ وہ خشک سالی کا مْقابلہ کر سکیں۔
پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے جانوروں کی خرید پر سبسڈی دی جائے۔گاؤ خانوں کا درجہ حرارت کم کر کے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔مویشیوں کو سائنسی طریقوں کے مْطابق ڈھال دیا جائے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق زیادہ پیداوار دینے کے لئے تیار ہو سکیں۔بہتر چارہ، مْقوی غذا، اچھی نسل والے بیل، بھیسوں کی افزائش، صاف صفائی کے انتظام جیسے طریقہ کار دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
پیداواری صلاحیت میں پسماندگی
اگرچہ بھارت دودھ پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے مگر گھریلو سطح پر ملک اپنی اوسط پیداوار میں اضافہ نہیں کر سکا ہے ۔یہاں کی گھریلو پیداوار میں سالانہ اضافے کی شرح 4.5فیصد ہے جبکہ عالمی سطح پر پیداوار میں اضافے کی اوسط شرح 1.8فیصد ہے۔مویشی پالن کے شعبے میں اضافے کی شرح تبھی زیادہ دکھائی دیتی ہے جب اس کا موازنہ زراعت کے شعبے سے کیا جائے۔
سال 2017-18ملک میں دودھ کی پیداوار تقریباً 17.63کروڑ ٹن رہی جو دودھ کی عالمی پیداوار کا 20.12فیصد ہے ۔ملک میں دودھ کی پیداوار فی الوقت 375گرام فی کس ہے۔نیشنل ڈیری ڈیویلوپمنٹ بورڈ کی طرف سے سنہ 1970 میں دودھ کی پیداوار کے ضمن میں آپریشن فلڈ کی اسکیم متعارف کئے جانے کے بعد بھارت دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔
بھارت جہاں ایک وقت میں اپنی گھریلو ضروریات کے لئے دودھ درآمد کیا کرتا تھا وہیں آج ہم دودھ بر آمد کر رہے ہیں۔ملک میں مویشی پالن سے جڑے لوگوں کی تعداد 2.24کروڑ ہے۔ان میں سے 1.68کروڑ صرف خواتین کی تعداد ہے ۔یہ سب چھوٹے درجے کے معمولی کسان اور بے زمین مزدور ہیں۔گھریلو دودھ کی پیداوار کے حوالے سے پنجاب، ہریانہ، راجستھان،گجرات اور ہماچل پریدیش جیسی ریاستیں سرفہرست ہیں۔
سال 2019میں دودھ کی پیداوار کا اندازہ18.77کروڑ ٹن تھاجبکہ اب نیتی آیوگ کی طرف سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2033تک دودھ کی مانگ 29.2کروڑ ٹن تک پہنچ جائے گی۔تاہم اگر چہ لگتا ہے کہ دودھ کی پیداوار میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے وہیں خیال رہنا چاہئے کہ ملک میں دودھ کی قیمتیں غیر مستحکم ہیں۔کچھ نجی ایک طرف ڈیریاں کسانوں سے حاصل دودھ کی اچھی قیمت نہیں ادا کر رہی ہیں تو دوسری طرف وہ صارفینوں کو فروخت کئے جانے والے دودھ کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔اگرچہ کواپریٹیو ڈیریاں کسانوں کو کچھ مراعات دینے کی کوشش کر رہی ہیں مگر کسانوں کو دی جانے والی ادایئگی کے بارے میں بہت سای نجی ڈیریوں کا برتاؤ ناقابل اعتراض ہے۔
کریسل (سی آر آئی ایس آئی ایل )کے تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مالی سال کے اواخر تک مْلکی پیداوار میں 5سے6فیصد تک کی گراوٹ درج ہوگی اوراندازہ ہے کہ یہ پیداوار 17.6کروڑ ٹن ہوگی تاہم یہ بھی واضح ر ہے کہ گزشتہ دسمبر کے آخر تک دودھ کی گھریلو پیداوار میں پہلے ہی6 فیصد کی گراوٹ درج ہوچکی ہے اور اگر حکومت کی طرف سے اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات نہیں اْٹھائے جاتے ہیں تو یہ قابل تشویش امر ہوگا۔