گذشتہ جمعہ کو جاری کردہ اعدادوشمار میں ظاہر ہوا ہے کہ گذشتہ سہ ماہی (کواٹر) میں مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)4.7فیصد رہی۔اس سے یہ متفقہ توقعات ختم ہوگئی کہ اکتوبر-دسمبر میں معیشت ایک نیا رخ لے گی حالانکہ پیشگوئی کردہ عدد بالکل صحیح نکلے۔ سُست روی اس لئے جاری رہی کیونکہ گذشتہ دو کواٹروں میں نمو پر نظرِ ثانی کی گئی تھی اور اب اپریل-جون کیلئے جی ڈی پی 5فیصد کی بجائے 5.6 فیصد اور جولائی -ستمبر کواٹر کیلئے 4.5فیصد کی بجائے 5.1 فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔یہ ایک معمہ ہے کہ سالِ رفتہ کی قومی آمدنی کے اندازوں میں تنزلی نظرِ ثانی کیوں موجودہ سال کی سہ ماہی جی ڈی پی نمو کو بڑھائے حالانکہ سالانہ نمو کے بارے میں اب بھی مالی سال 2019-20کیلئے 5فیصد کی پیشن گوئی کی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنوری-مارچ(کواٹر)کی نمو 4.7فیصد پر جمی رہے گی۔اس بات کا امکان ہے کہ شرحِ نمو کے تخمینے کا بعدازاں پھر سے جائزہ لیا جائے گا۔
پچھلے کواٹر میں معیشت کی کارکردگی جولائی-ستمبر(کواٹر)کے مقابلے میں بدترین تھی، ایک انتہائی ناقص کواٹر جس نے صارفین کے اعتماد اور کاروباری جذبات کو ڈبو دیا ۔اس دوران کاروں کی فروختگی،کاروبار کی کارکردگی اور دیگر چیزوں کا جوحال ہوا وہ حیرت میں ڈالنے والا ہے۔نظرِ ثانی شدہ اعدادوشمار سال 2019-20کے دوران نجی کھپت کی مانگ میں مستقل مستحکم نظر آئی ہے !گذشتہ کواٹر میں نجی صارف خرچہ میں اس سے پہلے دو کواٹروں کی نسبت میں 5.6اور5 فیصد سے 5.9فیصد تک تیزی آئی ہے۔
نمو کے مختلف اجزاء کے حوالے سے دیکھیں تو یہ مسلسل مایوس کن بنی ہوئی ہے۔سب سے قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اگر سرکاری اخراجات میں 12 فیصد بڑھوتری نہ ہوتی تو جی ڈی پی 3.5فیصد تک مزید سُست روی کا شکار ہوئی ۔اس سے(2019-20 میں) سال بھر کے عوامی اخراجات کے انداز میں نمو کو استقلال ملتا ہے۔سرکار کی کمزور مالی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ واضح طور پر غیر مستحکم ہے اور ساتھ ہی خود مختار نمو کے محرکات کے مسلسل خسارے کو بے نقاب کرتا ہے، جو ضم ہونے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
درآمدات اور سرمایہ کاری دونوں میں موجود بحران بڑی حد تک گہری ہوچکی ہے جو بنیادی طور پر دو مسلسل کواٹروں میں مینوفیکچرنگ شعبہ میں پیدا ہوئے بحران کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔فی الواقع زراعت اور عوامی انتظامیہ کو چھوڑ کر فراہمی(سپلائی)کی جانب کے ہر جُز پر مندی چھائی ہوئی ہے۔یہاں پر تعمیراتی شعبہ کی چونکا دینے والی تباہی پر لازما بات ہونی چاہیئے ۔اس شعبہ میں کوئی ترقی نہیں ہوسکی ہے یہاں تک کہ اسکی نمو کی شرح اس سال تاحال ہر کواٹر میں 2.6فیصد تک گرتی آرہی ہے۔
جیسا کہ گذشتہ کئی سال میں اکثر یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ جی ڈی پی کی بحالی کی توقعات ایک بار پھر موجودہ یا اگلے کواٹر کا انتظار کرے گی۔ تاہم کئی تجزیہ نگاروں نے گذشتہ دسمبر کواٹر میں (جی ڈی پی میں)بہتری لانے کیلئے چھوٹے پیمانے پر تسلسل کے ساتھ غیر زرعی، غیر سرکاری جی ڈی پی میں ہوئی بڑھوتری پر توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔یہ سچ ہے لیکن اس موقع پر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ رجحان آنے والے مہینوں تک برقرار رہے گی اور یہ مضبوطی بھی حاصل کریگی یا پھر یہ انوینٹری ریسٹاکنگ کی وجہ سے اثر اندوز ہوگی۔لیکن اس جانب جو اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں وہ ناکافی اور مبہم نظر آرہے ہیں۔
تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ جہاں جنوری میں صنعتی پیداوار کے اعداد و شمار ابھی بھی معلوم نہیں ہیں، لیکن اس ماہ بنیادی صنعتوں (کور انڈسٹری) کی پیداوار میں 2.2 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے، جو سنہ 2019 کی اگست نومبر میں پیدا ہوئی منفی نمو کو بہتری کی جانب دکھا رہا ہے۔وہیں فروری میں جی ایس ٹی کے تحت ہوئے محصولات میں 8.03 فیصد یعنی 1.05 کھرب روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب فائنانشل سیکٹر کے مطابق ملک کی معیشت کے انجن کیلئے بطور ایندھن کی حیثیت رکھنے والی’’ بینک کریڈٹ گروتھ‘‘بھی کسی طرح کی بہتری دکھانے میں ناکام رہا ہے۔وہیں جنوری میں جو 'نن فوڈ کریڈٹ ' میں 8.3 فیصد کے نمو سے اچھال دیکھا گیا تو وہ فروری 2020 کے پہلے دو ہفتوں میں گر کر 6.3 فیصد ہوگیا۔
پھر جنوری میں ذاتی قرضوں کی نمو میں مضبوطی دیکھنے کو ملی ( صارفین کی پائیداری میں 41 فیصد، جس کے بعد کریڈیٹ کارڈ کے بقایات اور ہاؤسنگ) لیکن کاروں کی فروخت کے حوالے سے یہ صورتحال برعکس رہی کیونکہ کاریں بنانے والی کمپناں BS-IV کے اسٹاک کو ختم کرنے کے لیے متفکر تھیں، جس وجہ سے فروری میں نمو کی شرح میں کمی نظر آئی اور صارفین کا اعتماد اس سے بحال نہیں ہو سکا۔
لہٰذا یہ دیکھنا باقی ہے کہ جو ہلکی بڑھوتری دیکھنے میں آئی ہے وہ ’’ری اسٹاکنگ‘‘کا نتیجہ ہے یا پھر اسکی وجہ کوئی اور پائیدار محرک ہے لیکن مستقبل کے امکانات اچانک سے دھندلے پڑ گئے ہیں،کم سے کم قلیل مدت کیلئے تو ایسا ہی کہا جاسکتا ہے۔اس اندازے کی بنیادی وجہ چین سے پھیلے کورونا وائرس کے پوری دنیا میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا ہے۔
کووِڈ19(کرونا وائرس)کے جھٹکے کی وجہ سے پہلے ہی سپلائی کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ادویات، آٹوموبائل اور الیکٹرانکس کی صنعت کیلئے درکار خام مال میں قلت پیدا ہوگئی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے پوری دنیا کی پیداواری نمو متاثر ہوچکی ہے جس سے بلا شبہ بھارت کی بر آمدات بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔کورونا وائرس کے اثرات کا کئی ماہ تک جاری رہنا متوقع ہے جبکہ مستقبل کے حوالے سے کوروناوائرس سے پیدا ہونے والی غیر یقینیت بڑی شدید ہوسکتی ہے جسکا اندازہ دنیا بھر میں بازار کے ردِ عمل اور معیشت کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔
نمو کی بحالی کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سرکار اپنے اخراجات میں کٹوتی کرے۔یہ آخری کواٹر میں کسی بھی سرکارکی خاصیت رہتی ہے لیکن بھاری مالی خسارے کی وجہ سے اس برس ایسی خاصیت پر خاص طور پر توجہ دیا جائے گا ۔حال ہی بتایا گیا ہے کہ حکومت نے اپنے محکمہ جات اور وزارتوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ مارچ میں خراب مالی حالت پر قابو پانے کے لیے 2019-2020 کے بجٹ کے مختص رقم کا 10 فیصد کے محدود رقم کا استعمال کریں، جو دسمبر میں 15 فیصد کے حد تک تجویز کی گئی تھی۔
مجموعی طور پر قلیل مدتی نمو اور بحالی کے امکانات سنگین اور مایوس کن بنے ہوئے ہیں۔ریزرو بنک آف انڈیا(آر بی آئی)کی غیر روایتی نرمی اور مختلف شعبوں کیلئے خاص غیر معمولی اقدامات کو لیکر کچھ کچھ امید کی جارہی ہے۔کیا کم شرحِ سود اور قرض کی دستیابی بصورتِ دیگر بد حال ماحول میں کوئی مثبت بدلاؤ لانے میں کامیاب ہوگی بھی یا نہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔
رینو کوہلی نئی دلی میں مقیم مائیکرو اکونومسٹ ہیں۔