لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ٹیکسٹائل کی صنعت خراب صورتحال سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔
ان لاک 1 کے تحت بیشتر کاروباری سرگرمیاں شرائط کے ساتھ شروع ہوگئیں۔ لاک ڈاؤن میں چھوٹ ملنے سے جہاں فیکٹریوں کا پہیہ تیزی سے چلنا شروع ہوگیا ہے۔ وہیں ٹیکسٹائل کی صنعت کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ کپڑوں کے عدم استعمال کی وجہ سے پوری ٹیکسٹائل صنعت بحران کا شکار ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ افراد کے مطابق، جب لاک ڈاؤن ہوا تو مہاجر مزدور نقل مکانی کر گئے۔ اگرچہ کم مزدوروں کے ساتھ کام دوبارہ شروع ہوا، لیکن کام کو پٹری پر واپس لانے میں وقت لگ سکتا ہے۔
رچا ٹیکسٹائل انڈسٹری کے منیجر سنجے نے بتایا کہ' لاک ڈاؤن سے پہلے وہ بہت سی کمپنیوں کے لیے کپڑا بناتے تھے، لیکن اب وہ کچھ ہی کمپنیوں کے لیے کپڑا تیار کررہے ہیں اور وہ بھی وقت پر خریداری نہیں کی جارہی ہے۔ مارکیٹ میں کپڑوں کی کھپت کی کمی کی وجہ سے تیار شدہ کپڑے گودام میں ہی بھرے پڑے ہیں۔
سنجے نے کہا کہ حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ ملازمین کو تنخواہ دینا ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے، کیونکہ اخراجات معمول کے مطابق ہے لیکن آمدنی متاثر ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ کپڑے نہیں خرید رہے ہیں جس کا اثر براہ راست ٹیکسٹائل انڈسٹری پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ ایک دن میں 15 سے 18 ٹن کپڑا تیار کرتے تھے، لیکن اب کپڑے کی پیداوار صرف 5 ٹن تک ہو رہی ہے۔
کپڑے کی تیار ہونے کے بعد خوردہ فروشوں کا نمبر آتا ہے۔ خوردہ فروش وہ لوگ ہوتے ہیں جو کپڑے سے بنی ہوئی مصنوعات بڑی مقدار میں خریدتے ہیں اور انہیں بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ فرید آباد کی مشہور نمبر 1 مارکیٹ کے خوردہ فروشوں دیپانشو اور نیرج نے بھی بتایا کہ 80 فیصد کاروبار متاثر ہوا ہے صرف 20 فیصد کاروبار ہورہا ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ آدھی سے زیادہ دہلی زیادہ بند ہے۔ پہلے جو وہ کپڑے دہلی سے لاتے تھے وہ بھی یہاں نہیں آپا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے صارفین کو مختلف قسم کے کپڑے بھی نہیں مل رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں صارفین کپڑے خریدنے سے گریز کررہے ہیں۔