زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی جانب سے بھارت بند کی کال کو تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں، متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں اور دیگر ٹریڈ یونینوں کی تائید حاصل ہے۔ اس سے قبل رواں برس 26 نومبر کو بھی بھارت بند کیا گیا تھا۔ 10 ٹریڈ یونینوں کی طرف سے بلائی گئی اس ہڑتال سے ملک کو بہت بڑا معاشی نقصان ہوا تھا۔ 2 ستمبر 2015 کو بند کی وجہ سے ملک کو 25 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔
ایف ڈی آئی کے خلاف ہڑتال
سنہ 2012 کے ستمبر میں ایف ڈی آئی کے خلاف ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ دن بھر بند کی وجہ سے 2 ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ بنیادی طور پر یومیہ مزدور، پیداوار میں ہونے والی کمی اور عوامی املاک کے نقصان کی وجہ سے اتنا نقصان ہوا۔ اس وقت ایف ڈی آئی اصلاحات کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی گئی تھی۔
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا تھا کہ جب آپ احتجاج کریں تو آپ کو اس طرح سے احتجاج نہیں کرنا چاہیے، جس سے معاشی نقصان ہو۔"
وزیر اطلاعات و نشریات امبیکا سونی نے کہا تھا کہ 'محدود احتجاج تو ٹھیک تھا لیکن احتجاج اس حد تک نہیں ہونا چاہیے جو لوگوں کے مفاد کے لیے 'نقصان کا سبب' بنے۔
دو ستمبر 2015 کی ہڑتال
2 ستمبر 2015 کو ٹریڈ یونینوں کی ملک گیر ہڑتال کے سبب بینکاری اور دیگر خدمات متاثر ہوئیں۔ تجارتی تنظیموں نے ہڑتال سے معیشت کو 25 ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ لگایا۔ کاروباری تنظیم نے کہا کہ یہ ایک خلل ڈالنے والا کام ہے۔ اس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی شبیہہ خراب ہوتی ہے۔
صنعتی تنظیم سی آئی آئی کے اس وقت کے صدر سومیت مجومدار نے کہا تھا کہ اگرچہ ہڑتال کا اثر جزوی تھا لیکن اس کا اثر ملک کی شبیہ پر گہرا پڑتا ہے۔ ہماری معیشت اس طرح کی رکاوٹوں کو برداشت نہیں کرسکتی اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے تمام اجزاء کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ٹریڈ یونینوں سے خلوص دل سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تمام زیر التواء معاملات بات چیت اور گفتگو کے ذریعے حل کریں۔
ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل ڈی ایس راوت نے کہا کہ ضروری خدمات میں رکاوٹ کے مالی اثرات کے نتیجے میں معیشت کو 25،000 کروڑ کا نقصان کا اندازہ ہے جس سے بہت سارے بالواسطہ اور بلاواسطہ نقصانات ہوسکتے ہیں۔
پبلک سیکٹر کے 23 بینکوں 12 نجی شعبے کے بینکوں 52 علاقائی دیہی بینکوں اور 13،000 سے زیادہ کوآپریٹو بینکوں کے کام کاج متاثر ہوئے تھے۔
سنہ 2018 میں ایس سی ۔ ایس ٹی قانون پر بھارت بند کی کال دی گئی تھی
دراصل 20 مارچ 2018 کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک تبصرے میں کہا تھا کہ 1989 کے شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ کا استعمال بے گناہ شہریوں کو 'بلیک میل' کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ لہذا سرکاری ملازمین اور نجی ملازمین کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک نئی ہدایت جاری کی جارہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ تھا کہ ذات پات اور مذہب سے قطع نظر بے۔ بے گناہ شہری کو ہراساں کرنا قانون کے منافی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی طے کیا تھا کہ ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ابتدائی تفتیش کی جانی چاہیے۔
21 مارچ کو مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس معاملے پر کہا تھا کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کررہے ہیں۔ کانگریس نے کہا کہ اس فیصلے پر فوری طور پر جائزہ لیا جانا چاہیے کیوں کہ اس سے دلت برادری میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جائے گا۔ حکمران جماعتوں کے دلت اراکین پارلیمنٹ نے وزیر قانون سے ملاقات کی اور فوری طور پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا مطالبہ کیا۔
قومی اتحاد نے مرکزی حکومت سے ایس سی / ایس ٹی (پی او اے) ایکٹ کو مضبوط بنانے کے لیے تیز رفتار اقدامات کرنے کی اپیل کی۔ لوک جن شکتی پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ چراغ پاسوان نے کہا کہ دلتوں کا سب سے مضبوط آلہ ختم ہوگیا۔
6 ستمبر 2018 کو بنیادی طور پر دلت برادری کے افراد نے احتجاج کیا۔ احتجاج میں معمولی تشدد بھی ہوا۔ تاہم حکومت نے نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔
حکومت نے اپنی نظرثانی درخواست میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ 20 مارچ کا فیصلہ ایس سی / ایس ٹی برادریوں کے لیے آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کرے گا، لہذا ایکٹ کی دفعات کو بحال کرنے کا حکم دیں۔
26 نومبر 2020 کو بھارت بند
ٹریڈ یونینوں نے زرعی قوانین کے علاوہ دیگر متعدد مطالبات پر بھارت بند کی کال دی۔ اس میں بنیادی طور پر 10 ٹریڈ یونینوں نے حصہ لیا۔ جن میں انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس، آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس، ہند مزدور سبھا، انڈین ٹریڈ یونین کا مرکز، آل انڈیا یونائیٹڈ ٹریڈ سینٹر، اے آئی یو ٹی یو سی، ٹریڈ یونین کوآرڈینیشن سینٹر، سیلف ایمپلائڈ ویمن ایسوسی ایشن، آل انڈیا سینٹرل کونسل آف ٹریڈ یونین، لیبر پروگریسیو فیڈریشن اور یونائیٹیڈ اسٹیٹ یونین کانگریس۔
ان کے اہم مطالبات کچھ اس طرح تھے۔ زرعی قانون کو واپس لینا۔ کم آمدنی والے خاندان کو ماہانہ 7500 روپے کی امداد فراہم کرنا، ضرورت مند لوگوں کو 10 کلو فری راشن دینا، منریگا کا دائرہ کار بڑھانا اور انہیں 200 دن کام دینا، سرکاری کمپنیوں کی نجکاری بند کرنا، پنشن اسکیم تمام شہریوں کے لیے نافذ کرنا وغیرہ۔
اس ہڑتال میں آل انڈیا بینک ایسوسی ایشن، آل انڈیا بینک آفیسرز ایسوسی ایشن اور بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا اس ہڑتال میں شامل تھے۔