عالمی وبا کووڈ۔19 کی وجہ سے کئی ممالک میں روزگار کے مواقع کمی کا اندیشہ ہے۔ آنے والے دنوں میں کروڑوں افراد کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ کو بھی اس پریشانی کا سامنا ہے۔ ایک طرف وبا کی وجہ سے معیشت خراب حالت میں ہے، جبکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ نے پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں شہری امریکہ میں بے روزگار ہوچکے ہیں، یہ دعویٰ امریکی محکمہ محنت اور دیگر ایجنسی خود کررہی ہے۔
واضح رہے کہ بہت ساری چینی کمپنیاں امریکہ میں موجود ہیں جو وہاں کے شہریوں کو روزگار کے تمام مواقع فراہم کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وبائی مرض کے دوران بھی چینی کمپنیوں کو اسٹاک مارکیٹ سے ہٹانے ان پر پابندی عائد کرنے کی کوششیں جاری رہی۔ اب اس ضمن میں ایک اور قدم کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنکیانگ کی روئی، ٹماٹر اور دیگر مصنوعات پر امریکہ میں درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
- مزید پڑھیں: کوٹپا میں ترمیم سے بیڑی کاروباری پر بحران کا خطرہ؟
- گاہکوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیوں نہیں؟
چین امریکہ کے بار بار اشتعال انگیز اقدامات کی شدید مخالفت کا کرتا رہا ہے۔ سنکیانگ مصنوعات پر پابندی کے اعلان سے چین اور امریکہ کے تعلقات مزید کمزور ہوں گے۔ اس کا اثر براہ راست امریکی معیشت پر پڑے گا۔
اس سے قبل بھی امریکہ چین تجارتی تنازع کی وجہ سے تقریباً ڈھائی لاکھ افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ کورونا کی وجہ سے بیروزگاری کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
دوسری طرف آکسفورڈ اکنامکس کی پرنسپل ماہر معاشیات نینسی وانڈن ہاؤٹن کے مطابق امریکہ میں بے روزگاری کے الاؤنس کے لیے درخواست دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ 'گریٹ ڈپریشن' یعنی (انتہائی مندی) سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں لیبر مارکیٹ کی بہتری میں بہت وقت لگ سکتا ہے'۔
یہاں تک کہ ملک میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد بھی امریکی حکومت چین کو اکسانے میں مصروف ہے۔ جیسا کہ چینی رہنما اکثر کہتے ہیں امریکہ کو اب سرد جنگ کے نظریے کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ آج چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، اس کے خلاف غیر ضروری پابندیوں سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ 21 ویں صدی میں کوئی کتنا بھی طاقت ور ہو وہ تحفظ پسندی کے نام پر کسی دوسرے ملک کی ترقی کو نہیں روک سکتا۔ چین کے ساتھ امریکی معاملات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔'