نئی دہلی: ویبینار میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے وزارت کے سکریٹری اتل چترویدی نے کہاکہ بھارت دودھ پیدا کرنے کے معاملے میں آتم نربھر ہے اور اس کے برآمد کرنے کے لیے اضافی پیداوار کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈیری مصنوعات کی تیاری اور برآمد میں اضافے سے متعلق معلومات فراہم کرائی۔
چترویدی نے کہا کہ کووڈ نے قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے ایک سبق دیا ہے اور ڈیری مصنوعات میں یہ خصوصیت ہوتی ہے۔ ایک ایسے طبقے کے لیے خصوصی مصنوعات تیار کرنے کی بڑی ضرورت ہے جو معیاری مصنوعات کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کےلیے تیار ہے۔ انہوں نے مویشی پروری اور ڈیری مصنوعات کے محکمے کی اسکیمیں اور پروگراموں مثلاً نیشنل پروگرام فار ڈیری ڈیولپمنٹ، نیشنل لائیو اسٹوک مشن، لائیو اسٹوک ہیلتھ اور ڈیزیز کنٹرول اور انیمل ہسینڈری انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ وغیرہ کے بارے میں بھی بتایا۔
ٹیکہ کاری کے ذریعہ لائیو اسٹوک کی صحت کی ضرورتوں پر زور دیتے ہوئے چتروید نےبتایا کہ مرکزی شعبےکی اسکیم کے تحت وزیراعظم نریندر مودی نے انیمل ڈیزیز کنٹرول پروگرام کا آغاز کیا تھا۔
وزارت کی جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر ورشا جوشی نے ڈیری مصنوعات کے برآمد کاروں کو پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات کےبارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیری صنعت کی مدد کے لیے ایک انویسٹمنٹ پروموشن ڈیسک قائم کی گئی ہے۔
ایپیڈا کے چیئرمین ڈاکٹر ایم انگا متھو نے کہا کہ اب وقت آگیا ہےکہ دنیا بھر کے مقامات کے لیے براہ راست اپنی ڈیری مصنوعات برآمد کے لیے ایف پی او، ڈیری فارمر یا کو آپریٹیوز کو فروغ دیا جائے۔ نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ کے ایکزیکیٹیو ڈائریکٹر مینیش سی شاہ نے بھی بھارت میں ڈیری کے شعبے کی مجموعی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
برآمد اکاروں کی جانب سے گجرات کو آپریٹیو ملک مارکٹنگ فیڈریشن (جی سی ایم ایم ایف) جو امول کے نام سے معروف ہے، کے منیجنگ ڈائرکٹر ڈاکٹر آر ایس سوڈھی نے برآمدات میں پیش آنے والی مشکلات یعنی چین، یوروپی یونین ، جنوبی افریقہ اور میکسکو میں بازار تک رسائی سے متعلق معاملات کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ سارک اور پڑوسی ممالک کے ذریعہ بہت زیادہ امپورٹ ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے مثلاً بنگلہ دیش کے ذریعہ (35 فیصد) اور پاکستان کے ذریعہ (45 فیصد)۔ سوڈھی نے بتایا کہ درآمد کرنے والے بڑے ممالک بھارت سے ڈیری مصنوعات پر اس سے بھی زیادہ امپورٹ ڈیوٹی لگاتے ہیں۔