ETV Bharat / budget-2019

بجٹ 2020: عام آدمی کے ہاتھوں میں زیادہ رقم ہونے کی امید - یکم فروری کو 2020کا بجٹ

ماہر معاشیات شیکھر ایئر نے عام بجٹ 2020 کے تعلق سے ٹیکس، روزمرہ استعمال کی چیزیں کی مہنگائی کو قابو کرنے، صارفین کے ہاتھ میں روپے دینے سے متعلق متعدد رائے قائم کی ہے۔ پڑھیں پورا مضمون۔

بجٹ 2020:عام آدمی کے ہاتھوں میں زیادہ روپے ہونے کی امید
بجٹ 2020:عام آدمی کے ہاتھوں میں زیادہ روپے ہونے کی امید
author img

By

Published : Jan 28, 2020, 7:33 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 7:44 AM IST


وزیرِ خزانہ نرملا سیتارمن جب یکم فروری کو 2020کا بجٹ پیش کریں گی ، تب سب کی نظریں انہیں پر ہونگی کہ وہ معیشت کو واپس توانا کرنے کیلئے کیا کچھ کررہی ہیں۔حالانکہ اس سے پہلے بجٹ میں غریب طبقات، کسانوں، غیر منظم مزدوروں اور دیگر نچلے طبقوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی تاہم عام آدمی کے ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ پیسہ دیے جانے کیلئے بعض بڑے اقدامات اٹھائے جانے کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ایسا یا تو انکم ٹیکس کی شرحیں کم کرنے سے ،یا روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے یا پھرلیکویڈیٹی کے حالات بہتر بنانے سے کیا جاسکتا ہے ۔
ایک دو ماہ قبل سیتارمن نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں کمی کردی ہے جس سے عام آدمی کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔
ہم ایک سو تیس کروڑ لوگوں کی آبادی والا ایک ملک ہیں، لیکن انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد فقط5.65کروڑ ہے لہٰذا ہر کوئی وزیرِ خزانہ سے ذاتی انکم ٹیکس میں چھوٹ کی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔
فی الوقت پانچ لاکھ روپے(چھوٹ کو زیرِ گور لائے جانے کے بعد) تک کی آمدنی رکھنے والے افراد کیلئے کوئی ٹیکس نہیں ہے تاہم بنیادی استثنیٰ کی حد ڈھائی لاکھ سے پانچ لاکھ روپے نہیں بڑھی ہے۔
محکمہ ٹیکس کے مطابق زائد از 97 لاکھ ٹیکس دہندگان نے پانچ لاکھ سے دس لاکھ روپے کے درمیان اپنی آمدنی دکھائی ہے اور ان ٹیکس دہندگان سے 45 ہزار کروڑ روپے کی وصولی کی گئی ہے ۔اس میں تنخواہ دار طبقے کا بڑا حصہ ہے لہٰذا یہ طبقہ ٹیکس میں مزید رعایت کی توقع کرتا ہے۔
اگر حکومت کی جانب سے ٹیکس میں بھاری چھوٹ ملتی ہے تو اس سے صارفین کو خرچ کرنے کیلئے زیادہ پیسہ ملے گا اور نتیجتاَ طلب کو بڑا فروغ ملے گا۔
کمانے والوں کے سرفہرست رہنے والوں کیلئے ٹیکس کی شرح 30فیصد ہے اور دس لاکھ یا اس سے زیادہ روپے کی آمدنی والے افراد سے اسی حساب سے وصولی کی جاتی ہے۔
اگر وزیرِ خزانہ آمدنی کی وہ حد بڑھاسکیں گی جس پر سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تو اس سے صارف بازار میں موڈ بدلے گا اور کاروبار کو فروغ ملے گا۔
'ٹاسک فورس آن ڈائریکٹ ٹیکس کوڈ' کی ایک تجویز یہ تھی کہ 10 لاکھ روپے کی آمدنی کیلئے نہیں بلکہ 20لاکھ روپے سے زائد کی آمدنی کیلئے 30فیصد کا ٹیکس وصول کیا جائے جبکہ دس سے بیس لاکھ روپے تک کی آمدنی کیلئے 20فیصداور ڈھائی لاکھ سے دس لاکھ روپے کے درمیانہ آمدنی رکھنے والوں کیلئے 10فیصد ٹیکس کی نئی شرحیں متعارف کرائی جاسکتی ہیں۔
فی الوقت ذاتی قبضے والی املاک کیلئے ہاوسنگ لون، یا گھر بنانے کیلئے لئے جانے والے قرضہ،کے سود کی کٹوتی (بشمولِ تعمیراتی کام سے قبل کے سود کے جو پانچ اقساط میں مانگا جاتا ہے)دولاکھ روپے تک محدود ہے۔
مزید برآں مالی سال 2019-20 میں سیکشن 80 ای ای اے کا متعارف کرایا گیا ،جسکا اسٹامپ ڈیوٹی ویلیو (سرکاری مالیت)45لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو،سود کی ادائیگی کی خاطر ڈیڑھ لاکھ روپے کی اضافی کٹوتی فراہم کرتا ہے۔اس کٹوتی کی اجازت گھر کیلئے لئے جانے والے قرضہ کے سود پر ملنے والی دو لاکھ روپے کی کٹوتی کے علاوہ ہے۔
کئی شہروں میں چونکہ جائیداد کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں لہٰذا گھروں کی مالیت پر کسی بھی حد کو ختم کردیا جانا چاہیئے۔
علاوہ ازیں تمام ٹیکس دہندگان کو اپنا پہلا گھر ،اسکی قیمت اور حجم سے قطع نظر،خریدنے کیلئے بھاری چھوٹ دی جاسکتی ہے۔اس سے خریداروں کو وسیع انتخاب کا موقع ملے گا اور جائیداد کے کاروبار کو بڑا فروغ مل سکتا ہے جسکی اسے ابھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح سیکشن 80 کے سی کے تحت گھریلو بچت کی حد، جو ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ مقرر ہے،جس میں رہن سہن کے اخراجات میں ہوئے اضافے کو دیکھتے ہوئے بڑھادیا جانا چاہیئے۔
بچوں کی ٹیوشن فیس، زندگی بیمہ کی قسط، گھر کیلئے کیے جانے والے قرضہ کی ادائیگی اور اس طرح کے دیگر اخراجات پر ٹیکس کی علیٰحدہ کٹوتی کی اجازت دی جانی چاہیئے اور ساتھ ہی نیشنل پنشن اسکیم(این پی ایس)میں 50 ہزار روپے کی اضافی حصہ داری پر کٹوتی بڑھائے جانے کا بھی مطالبہ ہو رہا ہے۔
ایک لاکھ روپے سے زیادہ کے درج ایکویٹی حصص سے ہونے والے طویل مدتی ایکویٹی گین پر نظرِ ثانی کا مطالبہ بھی ہورہا ہے جس پر غور کیا جانا چاہیئے۔چونکہ کئی افراد ایکویٹی میچول فنڈ میں برسوں سے سرمایہ کاری کرتے آئے ہیں لہٰذا ایک لاکھ روپے کی حد انتہائی کم ہے اور اسے بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر روزمرہ استعمال کی چیزیں سب سے مہنگی ہوچکی ہیں،انکی قیمتیں کم کرکے انہیں قابلِ خرید بنایا جانا چاہیئے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع ہے کہ بعض اشیاء پر جی ایس ٹی کم کرکے صارف بازار کو فروغ دیا جائے گا اور بازار میں طلب بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں گے جس سے بیمار معیشت میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔


وزیرِ خزانہ نرملا سیتارمن جب یکم فروری کو 2020کا بجٹ پیش کریں گی ، تب سب کی نظریں انہیں پر ہونگی کہ وہ معیشت کو واپس توانا کرنے کیلئے کیا کچھ کررہی ہیں۔حالانکہ اس سے پہلے بجٹ میں غریب طبقات، کسانوں، غیر منظم مزدوروں اور دیگر نچلے طبقوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی تاہم عام آدمی کے ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ پیسہ دیے جانے کیلئے بعض بڑے اقدامات اٹھائے جانے کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ایسا یا تو انکم ٹیکس کی شرحیں کم کرنے سے ،یا روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے یا پھرلیکویڈیٹی کے حالات بہتر بنانے سے کیا جاسکتا ہے ۔
ایک دو ماہ قبل سیتارمن نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں کمی کردی ہے جس سے عام آدمی کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔
ہم ایک سو تیس کروڑ لوگوں کی آبادی والا ایک ملک ہیں، لیکن انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد فقط5.65کروڑ ہے لہٰذا ہر کوئی وزیرِ خزانہ سے ذاتی انکم ٹیکس میں چھوٹ کی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔
فی الوقت پانچ لاکھ روپے(چھوٹ کو زیرِ گور لائے جانے کے بعد) تک کی آمدنی رکھنے والے افراد کیلئے کوئی ٹیکس نہیں ہے تاہم بنیادی استثنیٰ کی حد ڈھائی لاکھ سے پانچ لاکھ روپے نہیں بڑھی ہے۔
محکمہ ٹیکس کے مطابق زائد از 97 لاکھ ٹیکس دہندگان نے پانچ لاکھ سے دس لاکھ روپے کے درمیان اپنی آمدنی دکھائی ہے اور ان ٹیکس دہندگان سے 45 ہزار کروڑ روپے کی وصولی کی گئی ہے ۔اس میں تنخواہ دار طبقے کا بڑا حصہ ہے لہٰذا یہ طبقہ ٹیکس میں مزید رعایت کی توقع کرتا ہے۔
اگر حکومت کی جانب سے ٹیکس میں بھاری چھوٹ ملتی ہے تو اس سے صارفین کو خرچ کرنے کیلئے زیادہ پیسہ ملے گا اور نتیجتاَ طلب کو بڑا فروغ ملے گا۔
کمانے والوں کے سرفہرست رہنے والوں کیلئے ٹیکس کی شرح 30فیصد ہے اور دس لاکھ یا اس سے زیادہ روپے کی آمدنی والے افراد سے اسی حساب سے وصولی کی جاتی ہے۔
اگر وزیرِ خزانہ آمدنی کی وہ حد بڑھاسکیں گی جس پر سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے تو اس سے صارف بازار میں موڈ بدلے گا اور کاروبار کو فروغ ملے گا۔
'ٹاسک فورس آن ڈائریکٹ ٹیکس کوڈ' کی ایک تجویز یہ تھی کہ 10 لاکھ روپے کی آمدنی کیلئے نہیں بلکہ 20لاکھ روپے سے زائد کی آمدنی کیلئے 30فیصد کا ٹیکس وصول کیا جائے جبکہ دس سے بیس لاکھ روپے تک کی آمدنی کیلئے 20فیصداور ڈھائی لاکھ سے دس لاکھ روپے کے درمیانہ آمدنی رکھنے والوں کیلئے 10فیصد ٹیکس کی نئی شرحیں متعارف کرائی جاسکتی ہیں۔
فی الوقت ذاتی قبضے والی املاک کیلئے ہاوسنگ لون، یا گھر بنانے کیلئے لئے جانے والے قرضہ،کے سود کی کٹوتی (بشمولِ تعمیراتی کام سے قبل کے سود کے جو پانچ اقساط میں مانگا جاتا ہے)دولاکھ روپے تک محدود ہے۔
مزید برآں مالی سال 2019-20 میں سیکشن 80 ای ای اے کا متعارف کرایا گیا ،جسکا اسٹامپ ڈیوٹی ویلیو (سرکاری مالیت)45لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو،سود کی ادائیگی کی خاطر ڈیڑھ لاکھ روپے کی اضافی کٹوتی فراہم کرتا ہے۔اس کٹوتی کی اجازت گھر کیلئے لئے جانے والے قرضہ کے سود پر ملنے والی دو لاکھ روپے کی کٹوتی کے علاوہ ہے۔
کئی شہروں میں چونکہ جائیداد کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں لہٰذا گھروں کی مالیت پر کسی بھی حد کو ختم کردیا جانا چاہیئے۔
علاوہ ازیں تمام ٹیکس دہندگان کو اپنا پہلا گھر ،اسکی قیمت اور حجم سے قطع نظر،خریدنے کیلئے بھاری چھوٹ دی جاسکتی ہے۔اس سے خریداروں کو وسیع انتخاب کا موقع ملے گا اور جائیداد کے کاروبار کو بڑا فروغ مل سکتا ہے جسکی اسے ابھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
اسی طرح سیکشن 80 کے سی کے تحت گھریلو بچت کی حد، جو ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ مقرر ہے،جس میں رہن سہن کے اخراجات میں ہوئے اضافے کو دیکھتے ہوئے بڑھادیا جانا چاہیئے۔
بچوں کی ٹیوشن فیس، زندگی بیمہ کی قسط، گھر کیلئے کیے جانے والے قرضہ کی ادائیگی اور اس طرح کے دیگر اخراجات پر ٹیکس کی علیٰحدہ کٹوتی کی اجازت دی جانی چاہیئے اور ساتھ ہی نیشنل پنشن اسکیم(این پی ایس)میں 50 ہزار روپے کی اضافی حصہ داری پر کٹوتی بڑھائے جانے کا بھی مطالبہ ہو رہا ہے۔
ایک لاکھ روپے سے زیادہ کے درج ایکویٹی حصص سے ہونے والے طویل مدتی ایکویٹی گین پر نظرِ ثانی کا مطالبہ بھی ہورہا ہے جس پر غور کیا جانا چاہیئے۔چونکہ کئی افراد ایکویٹی میچول فنڈ میں برسوں سے سرمایہ کاری کرتے آئے ہیں لہٰذا ایک لاکھ روپے کی حد انتہائی کم ہے اور اسے بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر روزمرہ استعمال کی چیزیں سب سے مہنگی ہوچکی ہیں،انکی قیمتیں کم کرکے انہیں قابلِ خرید بنایا جانا چاہیئے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع ہے کہ بعض اشیاء پر جی ایس ٹی کم کرکے صارف بازار کو فروغ دیا جائے گا اور بازار میں طلب بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں گے جس سے بیمار معیشت میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 7:44 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.