مہریگل ترسن نے کہا کہ چین کے حراستی کیمپ میں اس قدر ظلم و ستم کیا گیا کہ وہ مرجانا چاہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حراستی مراکز میں تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتے ہوئے مذہبی اور ذہنی طور پر تکلیف دی جاتی ہے۔ چینی حکومت نے اقلیتی طبقہ کے ہزاروں مسلمانوں کو ان سنٹرس میں رکھا ہے۔
ترسن نے انٹرویو کے دوران رپورٹرس سے کہا کہ چینی حکومت نے انہیں 2017 میں دوسری مرتبہ گرفتار کیا تھا جبکہ تیسری بار گرفتار ہونے پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سزا کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ترسن نے کہا کہ میں سمجھتی تھی کہ میں مرجاؤں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تکلیف سے بچنے کےلیے میں عہدیداروں سے موت کی بھیک مانگتی تھی۔
ترسن نے چینی حکومت کی جانب سے کھلے عام حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔
تقریباً دو ملین ایغور مسلمانوں کو چینی حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کی اجازت نہیں ہے جبکہ انہیں اپنے رب حقیقی کا نام لفظ ’’اللہ‘‘ لینے سے بھی روکا جاتا ہے۔
ترسن نے بتایا کہ حراستی کیمپ میں وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ ان کے ساتھ مزید 60 مسلم خواتین بھی تھیں۔ ان مسلم خواتین کو مرد سیکوریٹی گارڈ کے سامنے سونا اور بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی تعریف میں گانے، گانے کو کہا جاتا۔
انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ چینی حراستی کیمپ میں خواتین کو زبردستی نامعلوم گولیاں کھلائی جاتی تھیں جس سے عورتوں کو کئی مسائل پیش آتے جبکہ اس کی وجہ سے تین مہینوں میں 9 خواتین ہلاک ہوگئیں۔
چین میں ایغور مسلم خواتین پرمظالم - Chinese detention camp
ایغور ڈیٹنشن کیمپ کی متاثرہ مسلم خاتون مہریگل ترسن نے ایک انٹرویوں میں اپنے اوپر ہوئے مظالم کوناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔
مہریگل ترسن نے کہا کہ چین کے حراستی کیمپ میں اس قدر ظلم و ستم کیا گیا کہ وہ مرجانا چاہتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حراستی مراکز میں تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتے ہوئے مذہبی اور ذہنی طور پر تکلیف دی جاتی ہے۔ چینی حکومت نے اقلیتی طبقہ کے ہزاروں مسلمانوں کو ان سنٹرس میں رکھا ہے۔
ترسن نے انٹرویو کے دوران رپورٹرس سے کہا کہ چینی حکومت نے انہیں 2017 میں دوسری مرتبہ گرفتار کیا تھا جبکہ تیسری بار گرفتار ہونے پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سزا کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ترسن نے کہا کہ میں سمجھتی تھی کہ میں مرجاؤں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تکلیف سے بچنے کےلیے میں عہدیداروں سے موت کی بھیک مانگتی تھی۔
ترسن نے چینی حکومت کی جانب سے کھلے عام حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔
تقریباً دو ملین ایغور مسلمانوں کو چینی حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہونے کی اجازت نہیں ہے جبکہ انہیں اپنے رب حقیقی کا نام لفظ ’’اللہ‘‘ لینے سے بھی روکا جاتا ہے۔
ترسن نے بتایا کہ حراستی کیمپ میں وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ ان کے ساتھ مزید 60 مسلم خواتین بھی تھیں۔ ان مسلم خواتین کو مرد سیکوریٹی گارڈ کے سامنے سونا اور بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی تعریف میں گانے، گانے کو کہا جاتا۔
انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ چینی حراستی کیمپ میں خواتین کو زبردستی نامعلوم گولیاں کھلائی جاتی تھیں جس سے عورتوں کو کئی مسائل پیش آتے جبکہ اس کی وجہ سے تین مہینوں میں 9 خواتین ہلاک ہوگئیں۔
abdur raheem
Conclusion: