راوت کی اس تنقید کے جواب میں کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کہا کہ ہم سنجے راوت پر توجہ نہیں دیتے، ہم ان کا سامنا اخبار بھی نہیں پڑھتے۔ان کی اس بیان کے بعد مہاراشٹر کی مہا وکاس آگھاڑی میں ایک مرتبہ پھر انتشار کی حالت دیکھی جا رہی ہے۔
پٹولے نے مزید کہا کہ ہم نے میڈیا کے ذریعے واضح کردیا ہے۔ جہاں بھی ہماری پارٹی لیڈران یا پارٹی پر تنقید کرنے کی کوشش کی جائے گی اسے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔یہی ہمارا موقف ہے۔لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنا ان کی پارٹی کو بڑا بناتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی چار انگلیاں ان کی اپنی جانب ہوتی ہیں صرف ایک انگلی ہی سامنے والے کی جانب ہوتی ہیں۔
واضح رہے گزشتہ دنوں سنجے راوت نے میڈیا سے مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی کامیابی کے بعد کہا تھا کہ ملک میں کانگریس پارٹی کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے جو تشویشناک ہے اگر مغربی بنگال میں کانگریس ناکام ہوتی ہے تو یہ ہمارے لئے تشویش کی بات ہے۔
لیکن ممتابنرجی نے بی جے پی کو تن تنہا جو کراری شکست دی ہے اس سے ایک مضبوط اپوزیشن متحدہ محاذ بننے کی راہ دکھائی دے رہی ہے۔مستقبل میں بی جے پی کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن بنانے کی خواہاں ہیں۔اس بننے والے محاذ میں یقینا کانگریس پارٹی اہمیت رکھتی ہے۔اور کانگریس کے بغیر کوئی محاذ تشکیل نہیں دے سکتا۔
آسام میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو اچھی کامیابی ملی لیکن وہ اقتدار میں نہیں آسکیں۔ کانگریس کو کیرالہ اور تمل ناڈو میں کچھ کامیابی ملی لیکن کانگریس کو ابھی بھی سخت مضبوط ہونےکی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کو بہتر اپوزیشن کے محاذ کی ضرورت ہے۔ کیا ہم مہاراشٹر میں مہاوکاس آگھاڑی کی طرح ملکی سطح پر کوئی مضبوط متحدہ محاذ بنا سکتے ہیں؟