پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ 'جب بھی کوئی مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے، تو اسے مغربی دنیا اسلامی دہشت گردی کا نام دے دیتی ہے'۔
اس تشویش کے اظہار کے ساتھ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ 'مسلم دنیا کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب زیادہ توجہ دینی چاہیے'۔
انہوں نے اعتدال پسند اور انتہا پسند مسلمان میں فرق کرنے پر زور دیتے ہوئے ایل ٹی ٹی ای کے خود کش حملوں، جاپانی سپاہیوں کے امریکی جہازوں پر خودکش حملوں اورفلسطینی جدو جہد کے حوالے کہا کہ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عصری منظر نامے میں اس سے مسلمانوں میں بڑی حد تک مایوسی پھیلتی ہے کیونکہ مذہب کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ازالے کے دوسرے رخ پر زور دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مسلم دنیا کو بہترین تعلیم کے لیے یونیورسٹیز کے قیام اورسائنس اور ٹیکنالوجی کی جانب زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ان شعبوں میں مسلم دنیا پیچھے ہے اور 'مجھے خوف ہے کہ مسلم دنیا ایک مرتبہ پھر پیچھے رہ جائے گی'۔
خیال رہے کہ عمران خان تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کی 14ویں چوٹی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اس استدلال کے ساتھ کہ مغرب میں مذہب کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی مسلم دنیا میں اسلام کو دی جاتی ہے پاکستانی وزیراعظم نے پیغمبر اسلام کی شان میں مغرب میں گستاخی پر ردِ عمل کے فقدان کو او آئی سی کی ناکامی پرمحمول کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارا مذہب جہاں ہماری زندگیوں میں شامل ہے وہیں مغربی دنیا میں مذہب کی جانب بالکل مختلف رجحان ہے'۔
عمران خان نے کہاکہ پیغمبر اسلام کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین جیسی مجالس کو واضح کرنا ہوگا کہ آزادی اظہارِ رائے کے نام پر ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچایا جاسکتا۔
پاکستانی وزیراعظم نے اس محاذ پر یہودیوں کی کامیابی کا حوالہ دیا اور کہا یہ انہی کا کارنامہ ہے کہ آج مغرب میں ہولوکاسٹ کا معاملہ نہایت حساس ہے، لیکن یہ حساسیت مسلمانوں کی مقدس کتاب اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے نظر نہیں آتی۔