صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر مباحثے کے دوران لوک سبھا میں ترنمول کانگریس کی مہوآ موئترا نے کہا کہ آج آئین خطرے میں ہے۔ ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے مرکزی حکومت پر پُر تشدد قوم پرستی اور ہجوم پر مشتمل نیشنلزم پھیلانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ملک کو ایک رکھنے کی بجائے تقسیم کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ 50 سال سے ملک میں رہ رہے ہیں ان سے بھارتی ہونے کے سرٹیفکیٹ کے طور پر ’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘ مانگا جا رہا ہے۔ سنہ 2014 کے مقابلے میں 2019 میں نفرت سے متاثر ہوکر جرائم کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ عام انتخابات جھوٹ اور ’فیک نیوز‘ کے دم پر لڑا گیا۔ عوام کو فرضی دشمن کا ڈر دکھا کر قومی سلامتی کو بڑا مسئلہ بنایا جا رہا ہے اور فوج کے کارناموں کو ایک شخص اپنے نام کرنا چاہتا ہے۔موئترا نے الزام عائد کیا کہ حذب اقتدارکے افراد کو یہ بھی برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی ان سے سوال پوچھے۔
ڈی ایم کے، کے دیاندھی مارن نے کہا کہ بی جے پی حالیہ لوک سبھا الیکشن میں اپنے دم پر نہیں بلکہ دوسری پارٹیوں کی کمزوری کی بدولت جیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر کے خطاب میں آبی وسائل اور پانی کے مسئلے کا ذکر آیا ہے۔نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق 2030 تک 40 فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں ہوگا۔ دہلی ، چنئی اور بنگلور سمیت 21 شہروں میں سنہ 2020 تک زیر زمین پانی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے تمل ناڈو حکومت پر ریاست میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے سلسلے میں کوئی کوشش نہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانی کا مسئلہ بے حد اہم ہے اور اس سلسلے میں تملناڈو کے افراد پریشان ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے تملناڈو کے اسکولوں میں ہندی کو نہ تھوپنے کی اپیل کی۔
تیلگودیشم پارٹی کے جے دیو گلَّا نے کہا کہ آج ملک میں دوبارہ ایمرجنسی جیسی صورتحال بن گئی ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ وہ ٹی ڈی پی کو بھی توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ تمام پارٹیاں ختم ہوجائیں اور سب بی جے پی میں شامل ہوجائیں۔ کیا اس کے ’سب کا ساتھ‘ کا یہی مطلب ہے۔
گلا نے کہا کہ حکومت کے سابق معاشی صلاح کاراروند سبرامنیم بھی کہہ چکے ہیں کہ گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے اعدادو شمار ڈھائی فیصد تک بڑھا کر پیش کیے گئے۔ گذشتہ سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو گھٹ کر 5.8 فیصد رہ گئی ہے۔
حکومت نے بے روزگاری کے اعدادوشمار کو دبائے رکھا۔ اس سے ایسی صورتحال بنی ہے کہ کسی بھی اعدادو شمار پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کمیٹی بناکر تمام اعدادو شمار کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اعدادوشمار کی بنیاد پر درست پالیسی نہیں بنائی جاسکتی۔