گورداسپور: پنجاب کے گرداس پور کے گاؤں مچھرائی میں جشن کا ماحول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ایک بزرگ خورشید احمد آج 77 سال بعد اپنے آبائی گاؤں کو دیکھنے بھارت آئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ خورشید کی عمر 90 سال سے زیادہ ہے۔ جب ملک آزاد ہوا تو وہ بچپن میں پنجاب کے گاؤں مچھرائی میں اپنی حویلی میں رہتے تھے۔
ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے دوران اس گاؤں کے مسلم کمیونٹی کے تمام لوگ پاکستان جا کر آباد ہو گئے۔ خورشید نے بتایا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ان کی خواہش تھی کہ ایک دن اس گاؤں میں جائیں جہاں وہ پیدا ہوئے اور جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا۔
آج جب وہ اپنے گاؤں پہنچے تو خورشید کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آج انہوں نے اپنا حج مکمل کرلیا ہے۔ بزرگ نے بتایا کہ جب وہ گاؤں پہنچے تو لوگوں نے انہیں بہت پیار دیا۔ اگرچہ گاؤں میں نئے گھر بن چکے ہیں، لوگ اب بھی اپنے پرانے ہم منصبوں کی طرح ہیں۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے دوران کئی خاندان بچھڑ گئے تھے۔ نہ صرف خاندان بلکہ سرحد سے ملحقہ کئی گاؤں بھی تقسیم ہو گئے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنا بچپن ہندوستان میں گزارا لیکن جوانی اور بڑھاپا پاکستان میں گزارا۔
وقت گزر گیا لیکن محبت کی جڑیں ایسی ہیں کہ آج بھی لوگ یہاں آنے کو ترستے ہیں۔ جب سے ہندوستان کے لوگوں کے لیے سری ننکانہ صاحب جانے کا راستہ کھلا ہے، ایسے بہت سے خاندانوں اور لوگوں کو موقع ملا ہے۔ جو لوگ تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے، ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان سے بھارت (پنجاب) کی سرحد عبور کر کے اپنے آبائی گائوں میں آ گئے۔ اس موقع پر ان کی خوشی ان کے مسکراتے چہروں سے دیکھی جا سکتی ہے۔
چند سال پہلے ننکانہ صاحب میں خورشید سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس گاؤں کے رہنے والے گرپریت سنگھ، جو پچھلے کچھ سالوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں، نے بتایا کہ خورشید کی چند سال قبل پاکستان کے گوردوارہ ننکانہ صاحب میں اپنے بھائی سے ملاقات ہوئی تھی اور انھوں نے ہندوستان آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ پھر یہاں سے بھائی نے پاکستان میں رہنے والے خورشید اور ان کے خاندان سے رابطہ قائم رکھا اور اب بالآخر انہیں ویزا مل گیا اور وہ یہاں اپنے آبائی گاؤں آ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ خورشید کو تقریباً 45 دن کا ویزا ملا ہے، لیکن شاید وہ جلد پاکستان واپس آجائیں گے۔