انہوں نے کہا کہ نئے خواب دیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور کچھ ہی لوگ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل پاتے ہیں جسے 91سالہ ڈاکٹر سکسینہ نے اپنی تحریر سے ثابت کیا ہے۔
پربھات پبلیکیشن نے اس کتاب کو شائع کیا ہے جس میں مصنفہ نے اپنی زندگی کےنو دہائی کے نچوڑ کو اپنی اس نویں کتاب میں شامل کیاہے۔مصنفہ نے دہائیوں کے تجربات ،احساسات اور سوچ کو کتاب میں حقائق پر مبنی طریقوں سے پیش کیا ہے۔کتاب کے کردار اور واقعات دونوں حقیقی ہیں۔عام طرز انداز میں لکھی گئی کتاب کو دلچسپ بنائے رکھنے کےلئے اس کا اختتام افسانوی بنایا گیاہے۔کتاب اس بات کو پیش کرتی ہے کہ ہم آپ کس سمت میں اور کہاں جارہے ہیں۔
اس موقع پر مصنفہ نے کہا کہ کتاب ایک نسل سے دوسری نسل کی قدروں میں تبدیلی کو باریکی سے پروکر پیش کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں بڑے مشترکہ خاندانوں کی جگہ چھوٹے خاندانوں نے لے لی ہے۔مردوں کے ساتھ خواتین کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کےلئے آگے بڑھ رہی ہیں۔
یہاں تک کہ سیاست میں بھی خواتین کی شمولیت بڑھتی جارہی ہے۔متوسط طبقہ بڑا ہوگیا ہے اور اقتصادی نابرابری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی اقدارپر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب کو پڑھنے والوں میں زیادہ سے زیادہ ردعمل ہے،’’یہ تومیری یا میرے خاندان کی کہانی جیسی ہے۔‘‘