اسے مصنوعی اس لیے کہا جارہا ہے کیوں کہ اسے باضابطہ طور پر حلوائی یا گھروں میں بناتے ہیں۔ یہ شکلاً تو بوندی کی طرح ہے لیکن اسے انگور کے دانے کے مساوی بنایا جاتا ہے اسی لیے اسے انگور کا دانہ کہا جا تا ہے۔
بھوپال میں خاندانی طور سے انگور دانے بنانے والے محمد سہیل نے بتایا کہ ان کے یہاں انگور کے دانے طویل عرصے سے بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے باپ آباء و اجداد کا یہ پیشہ رہا ہے اور یہ اصلاً ایک خاندانی وراثت کے طور پر ہم تک منتقل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا انگور دانے ماش کی دال سے بنائے جاتے ہیں، جس میں دال کو اچھی طرح پیس کر اسے ہاتھ سے اچھی طرح ملایا جاتا ہے اور اس میں پھر تین طرح کے رنگ ڈالے جاتے ہیں۔ پھر اسے تیل میں فرائی کرکے شکر کی چاشنی میں ڈبویا جاتا ہے ۔
جس کے بعد یہ چمکیلے اور انگور کی طرح نظر آتے ہیں، اس لیے انہیں انگور دانے کہا جاتا ہے۔
مقامی دکاندار ناصر خان کا کہنا ہے یہ انگور دانے 120روپے کلو فروخت کیے جاتے ہیں۔ ہماری اس دکان کے انگور دانوں کے بغیر بھوپال کا افطار ادھورا مانا جاتا ہے۔
وہیں یہاں آئے خریدار صابر خان اور ایوب خان کا کہنا ہے کہ انگور کے دانوں کے بغیر ہمارا افطار ادھورا ہے اور ہم بہت پرانے وقتوں سے یہاں کے بنے ہوئے انگور دانے کھارہے ہیں اور یہ انگور دانے دیکھنے میں جتنے خوبصورت ہیں اتنے ہی کھانے مزے دار۔