گل رسم کے نام پر عقیدت مندوں کے جسم میں لوہے کا آنکڑا پیوست کیا جاتا تھا اور اسے ایک مندر سے دوسرے مندر تک دوڑایا جاتا تھا۔ دیواستھان سمیتی کا دعوی ہے کہ اس سال گل رسم کو بند کردیا گیا ہے۔
ریاست مہاراشٹرکے معروف شہر اورنگ آباد میں عقیدت کے نام پر توہم پرستی عام ہے۔ اسی توہم پرستی کے خلاف ساری زندگی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر نریندر دبھولکر کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اورنگ آباد کے مضافاتی علاقے سیندرہ گاؤں میں ہر سال منگیر بابا کی یاترا ہوتی ہے۔ اس یاترا میں شردھا یعنی عقیدت کے نام پر عقیدت مندوں کے جسم میں لوہے کا آنکڑا پیوست کیا جاتا تھا اور اسے ایک مندر سے دوسرے مندر تک دوڑایا جاتا تھا۔ یہ غیر انسانی رسم سینکڑوں برسوں سے جاری تھی اور ہزاروں عقیدت مند خوشی خوشی اس پر عمل پیرا تھے لیکن معاملہ عدالت میں پہنچا تو دیواستھان سمیتی نے اس رسم پر پابندی عائد کردی ۔
مانگیر بابا یاترا میں صرف یہی ایک رسم نہیں ہے بلکہ جگہ جگہ توہم پرستی کے عملی مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ سب کچھ عقیدت کے نام پر ہوتا ہے اس لیے کوئی مخالفت کرنے کی جرائت نہیں کرتا۔
دیواستھان سمیتی کا کہنا ہے کہ تین روزہ مانگیر بابا یاترا کئی دنوں تک جاری رہتی ہے اور لاکھوں لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر عقیدت مندوں کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں بکرے اور مرغیوں کی قربانی دی جاتی ہے جسے بلی چڑھانا کہتے ہیں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
حالانکہ ضلع انتظامیہ اور دیواستھان سمیتی کی جانب سے پوسٹرز اور بینرز کے ذریعے بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یاترا میں آنے والے عقیدت مندوں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اب عدالت کی مداخلت کے بعد یہ غیر انسانی رسم ضرور بند ہوگئی ہے جسکا عوامی حلقوں میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے لیکن دیواستھان سمیتی کا دعوی ہے کہ اس رسم سے کسی کو اب تک کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔