ETV Bharat / briefs

میرٹھ میں گیند سازی کی صنعت بحران کا شکار

اترپردیش کے شہر میرٹھ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جو سپورٹس کا سامان بنتا ہے وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر برآمد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرٹھ کو اسپورٹس سٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

میرٹھ میں گیند سازی کی صنعت بحران کا شکار، متعلقہ تصویر
author img

By

Published : May 11, 2019, 2:24 PM IST

ایک زمانہ تھا جب میرٹھ میں لیدر کے گیند کی صنعت بام عروج پر تھی، لیکن اب نئی نسل کا رجحان اس صنعت کی جانب بہت کم ہوگیا ہے، جس کے سبب اس کے کاریگروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔

کاریگروں کا کہنا ہے کہ ایک دن میں چار سو سے پانچ سو کی آمدنی ہوتی جو اس مہنگائی کے دور میں ناکافی ہے۔

میرٹھ میں گیند سازی کی صنعت بحران کا شکار، متعلقہ ویڈیو

اوم پرکاش نے بتایا کہ جس بال پر کسی برانڈ کمپنی کا مہر نہیں رہتا ہے اس کی قیمت کم ہوتی ہے، لیکن اگر کسی برانڈ کا مہر لگ جائے تو وہی بال دوگنی، سہ گنی کی قیمت پر فروخت ہوتی ہے ۔

رند کمار گذشتہ 20 برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گیند بنانے میں سب سب سے اہم کام سلائی کا ہے جسے مزدوروں سے کمپنی کے مالکان مختلف طریقے سے یہ کام کراتے ہیں مثلاً کسی گیند میں 6 بار سلائی ہوتی ہے تو کسی میں کم ہوتی ہے۔

ایک طرف ملک میں صنعت و حرفت کو فروغ دینے سے متعلق بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، ایسی صورت میں میرٹھ کے یہ حالات ان تمام دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب میرٹھ میں لیدر کے گیند کی صنعت بام عروج پر تھی، لیکن اب نئی نسل کا رجحان اس صنعت کی جانب بہت کم ہوگیا ہے، جس کے سبب اس کے کاریگروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔

کاریگروں کا کہنا ہے کہ ایک دن میں چار سو سے پانچ سو کی آمدنی ہوتی جو اس مہنگائی کے دور میں ناکافی ہے۔

میرٹھ میں گیند سازی کی صنعت بحران کا شکار، متعلقہ ویڈیو

اوم پرکاش نے بتایا کہ جس بال پر کسی برانڈ کمپنی کا مہر نہیں رہتا ہے اس کی قیمت کم ہوتی ہے، لیکن اگر کسی برانڈ کا مہر لگ جائے تو وہی بال دوگنی، سہ گنی کی قیمت پر فروخت ہوتی ہے ۔

رند کمار گذشتہ 20 برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گیند بنانے میں سب سب سے اہم کام سلائی کا ہے جسے مزدوروں سے کمپنی کے مالکان مختلف طریقے سے یہ کام کراتے ہیں مثلاً کسی گیند میں 6 بار سلائی ہوتی ہے تو کسی میں کم ہوتی ہے۔

ایک طرف ملک میں صنعت و حرفت کو فروغ دینے سے متعلق بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، ایسی صورت میں میرٹھ کے یہ حالات ان تمام دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

Intro:قومی و بین الاقوامی سطح پر اسپورٹس کے ساز و سامان اترپردیش کے شہر میرٹھ سے ارسال کیا جاتا ہے. بھارت اور پاکستان کے تقسیم کے بعد میرٹھ کو اسپورٹس سٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.


Body:ایک زمانہ تھا جب میرٹھ میں لیدر بال کی صنعت اعلی پیمانے پر ہوتی تھی لیکن اب نئی نسل کا رجحان اس صنعت کی جانب بہت کم ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے کاریگروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے. کاریگروں کا کہنا ہے کہ ایک دن میں چار سو سے پانچ سو کی آمدنی ہوتی جو اس مہنگائی کے دور میں ناکافی ہے. اوم پرکاش نے بتایا کہ جس بال پر کسی برانڈ کمپنی کا مہر نہیں رہتا ہے اس کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن اگر کسی برانڈ کا مہر لگ جائے تو وہی بال دوگنا تین گنا کی قیمت پر فروخت ہوتا ہے حالانکہ بنانے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے لیدر بھی اسی نوعیت کا استعمال ہوتا ہے فرق صرف مہر کا ہوتا ہے ایسے میں علاقائی کاروباری کے لیے پریشان کن مرحلے ہیں. رند کمار کا کہنا ہے کہ گیند بنانے میں سب سب سے اہم کام سلائی کا ہے جسے مزدوروں سے کمپنی کے مالکان مختلف طریقے سے یہ کام کراتے ہیں مثلاً کسی گیند میں 6 بار سلائی ہوتی ہے تو کسی میں کم ہوتی ہے اسی معیار پر مزدوری ملتی ہے. خواتین بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں رند کمار بتاتے ہیں کہ آسان سلائی کا کام خواتین کرتی ہیں لیکن ان کو مزدوری مردوں کے بنسبت کم ملتی ہے. 20 برس سے لیدر کے بال بنانے والے رند کمار بتاتے ہیں ایک گیند کی تیار ہونے میں دو ہفتے کا وقت لگتا ہے انہوں نے بتایا کہ پہلے چمڑے کی خریداری ہوتی ہے بیشتر چمڑے کانپور سے آتا ہے اس کے بعد چمڑے کو رنگا جاتا ہے اس کے بعد نشاندہی کر کے اسے کاٹا جاتا ہے. انہوں نے کہا کہ اس کے اس کی سلائی ہوتی ہے اور یہی سب سے اہم کام ہوتا ہے جب کارگر گیند کو سل دیتا ہے اس بعد پینٹ کرتے ہیں پھر کسی کمپنی کی مہر لگاتے ہیں. انہوں نے کی ترکیب کوبتاتے ہوئے کہا کہ ایک بال 9 افراد کے ہاتھ سے گزرتا ہے تب وہ کھیلنے کے قابل ہوتا ہے. انہوں یہ بھی کہا کہ خام مال جالندھر سے بھی مانگایا جاتا ہے. کیسے لیدر کا گیند بنتا ہے کتنا دلچست ہے ویڈیو ملاحظہ کریں


Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.