آگرہ انتظامیہ نے ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شہر کے ایک نجی ہسپتال کو سیل کر دیا ہے جس میں اس کا مالک "ماک ڈرل" (جائزے)کی بات کر رہا ہے اور اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے 26 اپریل کو مریضوں کے آکسیجن کو بند کر دیا تھا۔
ہسپتال کے مالک نے آکسیجن کو پانچ منٹ کے لیے بند کر دیا تھا، یہ جاننے کے لئے کہ کون زندہ رہے گا۔ اترپردیش کے محکمہ صحت نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔
ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے متعلقین نے بتایا کہ انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو دوسرے اسپتالوں میں منتقل کریں۔ پارس ہسپتال میں مریض کے رشتہ دار لال کمار چوہان نے سوال کیا کہ 'ہمارے مریض کو 15 دن پہلے یہاں داخل کرایا گیا تھا اور حالت میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے۔ ہمیں مریض کو خارج ہونے والے دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ نہیں جانتے کہ اب مریض کو کہاں لے جانا ہے۔ آگرہ ایک چھوٹا شہر ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور آپشن دستیاب نہیں ہے، شہر کے بیشتر ہسپتال پھرے ہوئے ہیں اور جن کے پاس بیڈ ہیں وہ زیادہ چارج کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں، ہم اپنے مریض کا علاج کیسے کروائیں؟'
ہسپتال میں ایک اور مریض کے رشتہ دار موہت چودھری نے کہا کہ 'میرے والد کے پیر کا آپریشن ہوا اور وہ ابھی صحتیاب ہو رہے ہیں۔ اس نازک حالت میں، میں انھیں کہاں لے کر جاؤں؟ میں انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں کچھ وقت دیں۔'
ادھر تنازع کا مرکز بنے ہوئے آگرہ کے پارس ہسپتال کے مالک ڈاکٹر ارنجے جین نے کہا ہے کہ 22 اموات کی خبریں بے بنیاد ہیں اور وہ کسی بھی تحقیقات میں تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اموات کووڈ 19 کی لہر کے عروج کے دوران ہوئیں۔'
آگرہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پربھو این سنگھ نے بتایا کہ یہ ویڈیو اپریل کی تھی جو 7 جون کو وائرل ہوئی تھی۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہسپتال میں آکسیجن کی مناسب فراہمی ہے۔ اب تک 55 کووڈ مریض ہسپتال میں داخل ہیں جنہیں دوسرے ہسپتال منتقل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ مزید تحقیقات کے لئے ہسپتال کو سیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'آگرہ جیسے چھوٹے شہر میں، اگر کسی ہسپتال میں 22 مریض مرجاتے ہیں تو وہاں چیخ و پکار ہوگی مگر اس دن آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کوئی مریض نہیں ہلاک ہوا۔'