گیا میں ہاتھ سے اگربتی تیار کیے جانے کا کاروبار بہت پرانا ہے لیکن اب مشینی دور میں ہاتھ سے تیار کی جانے والی اگربتی کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ 25 برس سے اگربتی کے کاروبار سے جڑے آفتاب عالم بھی مزدوروں کی خستہ حالی کی تصدیق کرتے ہیں۔
محمد آفتاب بناتے ہیں کہ گیا میں اس کاروبار سے ہزاروں خاندان جڑے تھے لیکن اب یہ تعداد پانچ ہزار تک سمٹ گئی ہے۔
کم روشنی والے اس ہال میں تمام دن کی محنت کے بعد ایک مزدور سات سے آٹھ کلو اگربتی تیار کر پاتا ہے اور اس کے عوض میں انہیں فی کلو 15 روپئے دیے جاتے ہیں۔
ہاتھ سے اگربتی تیار کرنے کا کاروبار جس طرح سمٹ رہا ہے خدشہ ہے کہ آنے وانے والے دنوں میں اس کاروبار کو اپنا وجود بچانا بھی مشکل ہوجائے گا۔