ETV Bharat / briefs

چمکی بخار میں سو سے زائد بچوں کی موت، ذمہ دار کون؟

چمکی بخار سے روتے بلکتے ننھے بچے اور اپنے بچوں کے علاج کے لیے بھاگ دوڑ کرتے والدین، یہ روح فرساں منظر ہے بہار کے سرکاری اسپتالوں کا۔

چمکی بخار میں سو سے زائد بچوں کی موت، ذمہ دار کون؟
author img

By

Published : Jun 19, 2019, 11:57 PM IST


اکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم کو علاقائی زبان میں چمکی بخار کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کا شکار 15 برس تک کے بچے زیادہ ہوتے ہیں۔

چمکی بخار میں سو سے زائد بچوں کی موت، ذمہ دار کون؟

اے ای ایس یا چمکی بخار سے بچوں کو تیز بخار آتا ہے اور جسم میں اینٹھن ہوتی ہے جس کے بعد بچہ فوراً بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے کو قئے اور چڑچڑے پن کی بھی شکایت ہوتی ہے۔

اس بیماری کی وجہ سے اب تک مظفر پور کے شری کرشن میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں 93 اور کیجریوال اسپتال میں 19 بچوں کی موت ہوئی ہے جبکہ ریاست بھر میں اب تک مجموعی طور پر 157 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔

بہار کے مظفرپور، گیا اور نالندہ اضلاع میں چمکی بخار کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں جن کا علاج جاری ہے۔

اس دوران والدین نے بچوں کے علاج میں سست روی کی شکایت کی ہے اور بچوں کو او آر ایس مہیا کرانے میں تاخیر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

والدین کا کہنا ہے کہ انہیں چمکی بخار کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور اس کی کیا علامات ہیں؟ اس کا بھی علم نہیں ہے لیکن ڈاکٹرز نے بچوں کو دوا دینے کی ہدایت دی ہے اور بخار نہیں اترنے پر اسپتال میں داخل کرنے کی بات کہی ہے۔

سنہ 1977 میں پہلی بار اس مہلک بیماری کی تصدیق ہوئی تھی۔ تب سے اب تک ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔

اس بیماری کا سب سے زیادہ اثر مشرقی اترپردیش، بہار، مغربی بنگال اور آسام پر ہوا تھا۔

سنہ 2017 میں مشرقی اترپردیش میں 400 سے زائد بچے اس بیماری کے سبب ہلاک ہوئے تھے۔

چمکی بخار سے متاثرہ بچوں کے علاج کے لیے طبی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے جسے سماعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔


اکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم کو علاقائی زبان میں چمکی بخار کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کا شکار 15 برس تک کے بچے زیادہ ہوتے ہیں۔

چمکی بخار میں سو سے زائد بچوں کی موت، ذمہ دار کون؟

اے ای ایس یا چمکی بخار سے بچوں کو تیز بخار آتا ہے اور جسم میں اینٹھن ہوتی ہے جس کے بعد بچہ فوراً بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے کو قئے اور چڑچڑے پن کی بھی شکایت ہوتی ہے۔

اس بیماری کی وجہ سے اب تک مظفر پور کے شری کرشن میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں 93 اور کیجریوال اسپتال میں 19 بچوں کی موت ہوئی ہے جبکہ ریاست بھر میں اب تک مجموعی طور پر 157 بچوں کی موت ہو چکی ہے۔

بہار کے مظفرپور، گیا اور نالندہ اضلاع میں چمکی بخار کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں جن کا علاج جاری ہے۔

اس دوران والدین نے بچوں کے علاج میں سست روی کی شکایت کی ہے اور بچوں کو او آر ایس مہیا کرانے میں تاخیر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

والدین کا کہنا ہے کہ انہیں چمکی بخار کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور اس کی کیا علامات ہیں؟ اس کا بھی علم نہیں ہے لیکن ڈاکٹرز نے بچوں کو دوا دینے کی ہدایت دی ہے اور بخار نہیں اترنے پر اسپتال میں داخل کرنے کی بات کہی ہے۔

سنہ 1977 میں پہلی بار اس مہلک بیماری کی تصدیق ہوئی تھی۔ تب سے اب تک ملک بھر میں ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔

اس بیماری کا سب سے زیادہ اثر مشرقی اترپردیش، بہار، مغربی بنگال اور آسام پر ہوا تھا۔

سنہ 2017 میں مشرقی اترپردیش میں 400 سے زائد بچے اس بیماری کے سبب ہلاک ہوئے تھے۔

چمکی بخار سے متاثرہ بچوں کے علاج کے لیے طبی ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے جسے سماعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔

Intro:


Body:Aa


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.