ملک کے مختلف مقامات پر میں ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد Mob lynching in India رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے سنگین جرم پر قابو پانے میں حکومت ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ میں مذہب کے نام پر غریب مزدور یا اقلیتی طبقہ کے افراد کو نشانہ بنانا اور زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوا کر ان کی پٹائی کر زخمی کرنا اب عام ہو گیا ہے۔
آئیے جانتے ہیں سال 2021 میں کتنے ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ کے واقعات پیش آئے۔
رواں برس مغربی بنگال کے مالدہ، مرشدآباد، جھاڑگرام، بردوان اور شمالی 24 پرگنہ میں ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں چار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
- مغربی بنگال: West Bangal Mob Lynching Case
اتر دیناج پور کے رائے گنج تھانے کے تحت چوپڑا علاقے میں گائے چوری کے شبہ میں ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ مہینہ کے دوران ہجومی تشدد کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی بنگال کے جھاڑ گرام ضلع کے شالبونی تھانہ علاقے میں گائے چوری کے شبہ میں مقامی باشندوں نے ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔ رواں برس شمالی بنگال میں ہجومی تشدد کا یہ پانچواں معاملہ تھا۔
ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح مغربی بنگال میں بھی ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ سال 2021 میں شمالی بنگال کے مختلف اضلاع میں ہجومی تشدد کے پانچ واقعات رونما ہوئے تھے جن میں چار لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی 24 پرگنہ کے باسنتی میں 2 ستمبر کو مسلم نوجوان محمد رفیق السلام کو موبائل فون چوری کرنے کے الزام مقامی افراد نے پٹائی کی جس کے نتیجے میں اس کی موت ہوگئی۔
اس واقع کے متعلق مسلم تنظیموں کا کہنا تھا کہ رفیق السلام کو مسلم ہونے کی وجہ سے پیٹ پیٹ کر مارا گیا ہے۔
اس واقعہ کے خلاف احتجاج کر کے رفیق السلام کے موت کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- پنجاب: Punjab Mob Lynching Case
بنجاب کے شہر امرتسر میں ایک شخص کو نشان صاحب کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم نے پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، حالانکہ پولیس کا کہنا تھا کہ اس شخص کو چوری کے الزام میں مارا گیا ہے۔
یہ واقعہ نظام پور گاؤں میں پیش آیا جہاں ایک شخص نے مبینہ طور پر نشان صاحب کی بے حرمتی کی کوشش کی جس کے بعد مقامی لوگوں نے ملزم کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- دہلی: Delhi Mob Lynching Case
قومی دارالحکومت دہلی کے ترلوک پوری میں چوری کے شک میں ایک نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار بھی کیا ہے۔
مشرقی دہلی کے میور وہار تھانے علاقے کے ترلوک پوری علاقے میں نصف درجن سے زیادہ بدمعاشوں نے 30 سالہ نوجوان کے ساتھ مار پیٹ کی اور چاقو سے پے درپے حملہ کیا۔ نوجوان کو تشویشناک حالت میں لال بہادر شاستری ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں سے جی ٹی بی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن نوجوان نے علاج کے دوران دم توڑ دیا۔
ماب لنچنگ کا شکار ہونے والے نوجوان کی شناخت صابر کے طور پر ہوئی۔ صابر ترلوک پوری کے 32 بلاک کا رہنے والا تھا۔
اس معاملے میں پولیس نے ایک ملزم کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- مدھیہ پردیش: Madhya Pradesh Mob Lynching Case
رواں برس ہجومی تشدد کے معاملے میں سب سے زیادہ سُرخیاں اندرو کے واقعہ نے بٹوری تھیں جہاں تسلیم نامی ایک چوڑی فروش شخص کو اکثریتی طبقہ نے زد و کوب کیا تھا۔
ماہ اگست میں اترپردیش کے رہنے والے تسلیم چوڑی والے کے ساتھ بال گنگا تھانہ علاقے کی گووند کالونی میں ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملکی سطح پر بحث شروع ہوگئی تھی۔
بعد ازاں اقلیتی طبقہ کے رہنما اور سماجی کارکنوں نے کارروائی کا مطالبہ کیا اور پولیس نے مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی تھی لیکن ہجومی تشدد کے شکار تسلیم چوڑی والے کے خلاف ہی پولیس نے پوکسو ایکٹ کے تحت کاروائی کرتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اندرو واقعہ ہجومی تشدد معاملہ پوری طرح ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ مدھیہ پردیش کے ہی اجین شہر کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں ایک کباڑ بیچنے والے مسلم شخص کو دو شرپسندوں کے ذریعہ 'جے شری رام' نعرہ لگانے پر مجبورکیا جارہا تھا ساتھ ہی اسے دھمکیاں بھی دی جارہی تھی۔
تفصیلات کے مطابق مدھیہ پردیش کے ضلع اجین میں ایک مسلم کباڑ بیچنے والے عبدالرشید کو شرپسندوں نے 'جے شری رام' کا نعرہ لگانے کے لیے مجبور کیا۔
اس واقعہ کا وائرل ویڈیو اجین سے 60 کلومیٹر دور محد پور تحصیل کے جھنڈا تھانہ علاقے کا بتایا جارہا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد علاقے میں بے چینی کا ماحول تھا جس کے بعد ایس ڈی او پی نے بتایا کہ 'گاؤں کے دو شرپسندوں نے عبدالرشید کو روک کر زبردستی جے شری رام کے نعرہ لگانے پر مجبور کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- اتر پردیش: Uttar Pradesh Mob Lynching Case
اتر پردیش میں متھرا کے کوسی کلاں پولیس اسٹیشن کی حدود میں مویشی لے جا رہے لوگوں پر ہوئے ہجومی حملے میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی جبکہ تین لوگ شدید طور سے زخمی ہو ئے تھے۔
ماب لنچنگ میں زخمی ہونے والے رحمان نامی شخص نے بتایا تھا کہ وہ ہاتھرس سے جانور لے کر ہریانہ جارہے تھے، اس دوران کوسی کلاں کے علاقے میں دیہاتیوں نے انہیں گھیر لیا جس کے بعد ان کی گاڑی بے قابو ہوکر الٹ گئی تھی۔ اس ہجومی تشدد کے سبھی متاثرین علی گڑھ کے رہنے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ضلع علی گڑھ میں تھانہ ہردعا گنج علاقے کے ایک مسلم شخص عامر خان سے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوانے جیسی مذموم کوشش کی گئی تھی۔ ساتھ ہی عامر کو بری طرح مارا پیٹا بھی گیا۔
زخمی حالت میں عامر کو علاج کے لیے ضلع ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جبکہ پولیس نے مقدمہ درج کر دو لوگوں کو گرفتار کیا۔
تفصیلات کے مطابق جب عامر کام کے بعد لوٹ رہے تھے تبھی دو لوگوں نے انہیں روک کر زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے اور پھر اس کی پٹائی بھی کی نیز موبائل سے ویڈیو بناتے ہوئے انہیں بری طرح زخمی کر دیا گیا تھا
زخمی عامر خان نے بتایا تھا کہ وہ پھیری پر کپڑے بھیجتا ہوں جب کپڑے دے کر واپس آ رہا تھا تو دو لوگ جو باپ اور بیٹے تھے، میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے جے شری رام بول، میں نے جے شری رام بول دیا تو مجھے مارنا شروع کر دیا اور کہنے لگے تو 'مُلا' ہے۔ اتنا کہتے ہی مارنے لگے اور کہا کہ تجھے کس نے بھیجا ہے یہاں پر، تو یہاں پر کیسے آیا، تیرا نام کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریلی شہر میں شاہ رخ اور ریحان نامی دو نوجوانوں کی پٹائی کے معاملے میں ایک نوجوان کی موت کا معاملہ سامنے آیا۔ الزام یہ تھا کہ دونوں نوجوان شہر کی ایک پاش کالونی میں چوری کے ارادے سے تالا توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس درمیان کالونی کے باشندوں نے انہیں موقع پر پکڑ لیا اور نام پوچھ کر دونوں کی جم کر پٹائی کی جس میں ایک نوجوان کی موت ہوئی تھی۔
تفصلات کے مطابق شہر کے تھانہ عزت نگر علاقے میں واقع بنّوبال کالونی میں دو نوجوانوں کی پٹائی کا ویڈیو بھی وائرل ہوا تھا۔
ان دونوں نوجوانوں پر الزام تھا کہ یہ بنّوبال کالونی میں چوری کے ارادے سے شٹر کا تالہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی درمیان کالونی کے باشندوں نے ان دونوں کو موقع سے پکڑ لیا اور نام پوچھنے کے بعد جم کر پٹائی کی۔
اس معاملے میں پولس نے نندن سنگھ مہرا کی تحریر پر شاہ رُخ اور ریحان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع مراد آباد تھانہ مونڈا پانڈے علاقے کے رہنے والے ذاکر ولد کلن نے 24 مئی کو تھانہ کٹ گھر پولیس کو ایک تحریر دیتے ہوئے شکایت کی تھی کہ ان کے بھائی شاکر ایک گوشت کاروباری ہیں اور وہ اپنی اسکوٹی سے گوشت لے کر جا رہے تھے تبھی کچھ لوگوں نے اس کو پکڑ کر لاٹھی ڈنڈوں سے جم کر پیٹا تھا۔
گوشت کاروباری شاکر نے بتایا کہ انہیں پیٹنے والے لوگ گئو رکشک تھے۔
گئو رکشک تنظیم کے صدر منوج ٹھاکر نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر الزام عائد کرتےہوئے کہا کہ تمہارے پاس گائے کا گوشت ہے اور یہ کہنے کے بعد انہوں نے لاٹھی ڈنڈوں سے مارنا شروع کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- راجستھان: Rajasthan Mob Lynching Case
راجستھان کے ضلع الور میں 43 سالہ دین محمد نامی شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔
پولیس کے مطابق الور کے ہرسورہ پولیس اسٹیشن کے علاقے میں 43 سالہ شخص کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔
دین محمد ضلع الور کے قصبہ خیرتھل کے رہنے والے تھے اور کھیتوں کی دیکھ رکھ کا کام کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکشا چوری کے الزام میں الور شہر کے شیو لال علاقے میں لوگوں نے دو افراد سمیت ایک خاتون کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر مارا پیٹا۔
راجستھان کے ضلع الور میں ایک اور ہجومی تشدد کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں رکشا چوری کے الزام میں الور شہر کے شیو لال علاقے میں لوگوں نے دو مرد اور ایک خاتون کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر بے رحمی سے پٹائی کر دی تھے۔
مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ یہ خاتون اور دونوں نوجوان رکشا چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور چوری کے بعد فرار نہ ہو جائیں اس لئے انہیں بجلی کے کھمبوں سے باندھ دیا گیا۔
لوگوں کا الزام تھا کہ اس علاقے سے رکشا چوری کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع چتوڑگڑھ کے بیگوں تھانہ علاقے میں ہجومی تشدد کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ جہاں مویشیوں کی اسمگلنگ کے شبہ میں دو لوگوں کی پٹائی کر دی گئی تھی۔ اس میں ایک شخص کی موت ہوئی تھی جبکہ دوسرا شخص شدید طور پر زخمی ہوا تھا۔
پولیس نے قتل کا معاملہ درج کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- ہریانہ: Haryana Mob Lynching Case
ہریانہ میں واقع پلور کے گاؤں رسول پور کے رہائشی 22 سالہ نوجوان راہول خان کو اس کے اپنے ہی دوستوں نے قتل کردیا تھا، جس کی ایف آئی آر، آئی پی سی 209 اور 304 اے کے تحت چندہاٹ پولیس اسٹیشن میں درج کرائی گئی تھی۔
اس معاملے میں ملزمین کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جسم پر متعدد زخموں کے نشان ملے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سولہ مئی کو ہریانہ میں کھیڑا خلیل پور کے رہنے والے جم ٹرینر آصف کی درجن بھر لوگوں نے پٹائی کی تھی جس میں آصف کی موت ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- بہار: Bihar Mob Lynching Case
بہار کے ضلع ارریہ میں 45 سالہ شخص کو مویشی چوری کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے کا سنسنی خیز معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق ماب لنچنگ کا واقعہ ضلع ارریہ کے پھلکاہا تھانہ کے مانک پور پنچایت واقع بھوانی پور گاؤں میں پیش آیا ہے جہاں دیر شب مویشی چور بتا کر گاؤں والوں نے ایک شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
مقتول کی شناخت محمد شمشاد اور عمر 45 سال کے طور پر ہوئی تھی جو ارریہ سے متصل ضلع سپول بلوا تھانہ حلقہ کے کشہر گاؤں کے رہنے والے تھے۔
گاؤں والوں کا دعویٰ تھا کہ گاؤں کے ہی رہنے والے دو لوگ مویشیوں کو مبینہ طور چوری کر کے لے جا رہے تھے۔ اسی درمیان نیند کھلنے پر مویشیوں کے مالک نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ہنگامہ ہوتے ہی سینکڑوں گاؤں والے پہنچ گئے۔
گاؤں والوں کے مطابق وہ ایک سے زیادہ تھے جن کا گاؤں والوں نے پیچھا کیا جس میں سے ایک کو پکڑ لیا گیا تھا جبکہ دوسرا بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اس کے بعد مشتعل گاؤں والے محمد شمشاد پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ کی جس سے شمشاد بری طرح زخمی ہو گیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر دم توڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کے ضلع گیا کے ڈوبھی پولیس اسٹیشن حدود میں چوروں کی دہشت سے پریشان گاؤں کے لوگوں نے ایک شخص کو چور سمجھ کر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا۔
معلومات کے مطابق یہ واقعہ کیشاپی گاؤں میں پیش آیا تھا۔ مقتول کی شناخت گروا تھانہ علاقہ کے جگناتھ پور گائوں کے مہندر پاسوان کا 19 سالہ بیٹا دیپ کمار کے نام سے ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ارریہ کے جوکی ہاٹ بلاک کے چکئی گاؤں میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس کی وجہ سے علاقے کی پر امن فضا مکدر ہوگئی تھی۔
چکئی گاؤں کے رہنے والے بجلی مستری محمد اسماعیل کو پاس کے ہی گاؤں کے یادو ٹولہ کے شرپسندوں نے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا اور بہیمانہ طریقے سے ان کی ماب لنچنگ کردی تھی۔
ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے ملزمین کا الزام تھا کہ اسماعیل ان کے گاؤں میں چوری کے ارادے سے داخل ہوا تھا جسے مقامی لوگوں نے پکڑ لیا اور مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کردیا۔
اس معاملے میں ہلاک ہونے والے محمد اسماعیل کے والد محمد شعیب کی عرضی پر 15 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کے سمستی پور ضلع کے آدھار پور گاؤں میں 21 جون 2021 کو شراون یادو کے قتل کو لیکر ہنگامہ کرتے ہوئے ہجوم میں شامل سینکڑوں شرپسندوں نے پولیس فورس کی موجودگی میں نائب مکھیا حسنین کے گھر کا گھیراؤ کیا اور خواتین کے کپڑے پھاڑ دیئے تھے۔
اس دوران پیشے سے ٹیچر صنوبر خاتون کو پیٹتے ہوئے گھر کے سامنے گھسیٹا گیا تھا۔
اپنی روداد بیان کرتے صنوبر کی بیٹی نے کہا تھا کہ ہنگامہ کے بعد ان کی دو بہنوں کو گھسیٹا گیا اور انہیں بھی مارتے ہوئے باہر لے گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'میری والدہ اور کزن کو شراون یادو کے گھر کے قریب زدوکوب کیا گیا تھا۔ میری دو بہنوں کو بھی کہیں اور لے جایا گیا اور مردہ حالت میں پانی کے گڑھے میں پھینک دیا گیا تھا جبکہ بعد میں پڑوسیوں نے میری جان بچائی۔
صنوبر کی بیٹی نے مزید بتایا تھا کہ ہجوم نے انہیں اور ان کے چچا کے گھر اور کسٹمر سروس سینٹر سے نقدی، زیورات، قیمتی سامان وغیرہ لوٹنے کے بعد مکان، کار، کسٹمر سروس سینٹر کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
اس معاملہ میں پولیس تھانہ میں مقدمہ نمبر 282/21 درج کیا گیا۔ متاثرین نے مطالبہ کیا کہ اس کیس کے تمام ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔ مقتول صنوبر خاتون اور محمد انور کے اہل خانہ کو سرکاری ملازمت دی جانی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- گجرات: Gujarat Mob Lynching Case
رواں برس ریاست گجرات میں بھی ہجومی تشدد کے معاملے سامنے آئے۔ جس میں ایک معاملہ احمدآباد کے ریور فرنٹ کا ہے جہاں دو مسلم لڑکوں پر 6 غیر سماجی عناصر نے چاقو سے حملہ کر دیا تھا۔
دراصل 18 نومبر 2021 کی رات تقریباً 9 بجکر 45 منٹ پر نوشاد اور روحان نام کے دو اشخاص احمدآباد کے ریور فرنٹ عثمان پورا گارڈن کے پاس سڑک پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے تبھی 6 غیر مسلم لڑکوں نے ان سے نام پوچھ کر انہیں گالیاں دینا شروع کی اور ان پر چاقو سے حملہ کیا۔
اس حملے میں زخمی ہونے والے محمد روحان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 'جب وہ لوگ ریور فرنٹ پر بیٹھے تھے تو اچانک سے 6 غیر مسلم لڑکوں نے آکر ان کا نام پوچھا اور انہیں گالیاں دینی شروع کردیں تھی۔ ان کے پاس چاقو تھے جس سے انہوں نے نوشاد اور مجھ پر حملہ کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔۔
روحان نے مزید بتایا تھا کہ 'وہاں پر موجود لوگوں نے 108 اور 100 نمبر پر کال کیا پھر ان دونوں کو سِوِل ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا آؤٹ پیشنٹ کے طور پر علاج کیا گیا اور نوشاد کو شدید جان لیوا زخموں کے ساتھ آئی سی یو میں داخل کرایا گیا۔
روحان کے مطابق بعد میں پولیس نے ان دونوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات میں ہجومی تشدد کا دوسرا واقعہ احمدآباد کے پالڈی علاقے میں مدرسہ میں پڑھنے والے دو بچوں کی جم کر پٹائی کی گئی تھی۔ بتادیں کہ ملک میں ایک کے بعد ایک ہجومی تشدد کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
گجرات کے احمدآباد میں مسلم نوجوانوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں مدرسہ میں پڑھنے والے دو بچوں کی شدید پٹائی کی گئی۔
رات 10 بجے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے دو بچے ایکٹیوا گاڑی سے اپنے گھر پالڈی واپس جارہے تھے۔ اسی وقت اس علاقے کے وشو کنج چار راستے پر بھاویش نامی ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایکٹیوا پر جارہا تھا کہ اسی دوران مفتی عبدالقیوم رنگیز کے بیٹے خضر اور ان کے بھتیجے عمر کی ایکٹیوا بھاویش کی ایکٹیوا سے ٹکرا گئی اور دونوں بچے زمین پر گرگئے۔
مسلم بچے ہونے کی وجہ سے بھاویش نے ان بچوں کو خوب پیٹا جبکہ بھاویش کے ساتھ آس پاس کے لوگوں نے بھی ان دونوں مسلم بچوں کی شدید پٹائی کی۔
اس تعلق سے متاثرہ بچے کے بھائی نے بتایا تھا کہ اس حادثے کے بعد ان کے پاس فون آیا اور انہوں نے سب سے پہلے اپنے بھائیوں کو ہسپتال لے جانے کوشش کی اور احمدآباد کے شفا ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ وہیں اس معاملے کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات میں تیسرا بھی احمدآباد میں ہی پیش آیا ہے جس میں ایک مسلم نوجوان کا نام پوچھ کر اس کی پٹائی کی گئی۔ اس معاملے کے خلاف جمعیت العلماء ہند کی گجرات یونٹ نے امرائی واڑی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔
یہ معاملہ 26 ستمبر کو احمدآباد کے کھوکھرا علاقے میں پیش آیا تھا جس میں ایک سوسائٹی میں ڈلیوری بوائے امن سنگھ سسودیا کے ساتھ انس نام کا مسلم ڈرائیور پارسل ڈلیوری کرنے گیا تھا۔
سوسائٹی کے سکیورٹی گارڈ سے کسی بات پر دونوں کی تکرار ہوئی جب ڈیلیوری بوائے نے اپنا نام امن سنگھ بتایا تو اسے چھوڑ دیا لیکن دوسرے شخص کا نام انس سنتے ہی سکیورٹی گارڈ نے انس کو لوہے کے روڈ سے پیٹنا شروع کردیا آس پاس کے لوگ بھی انس کو پیٹنے لگے حتی کے پٹائی کے سبب انس کے کان کا پردہ پھٹ گیا۔
ہجومی تشدد کا شکار محمد انس نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ 'نام انس ہونے کی وجہ سے ان کی پٹائی کی گئی تھی اور اس معاملے کے بعد پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو پولس نے شکایت درج کرنے کی بجائے انہیں ہاسپیٹل بھیج دیا تھا۔
اس سارے معاملے پر جمعیت العلما ہند کی ٹیم نے انس کی مدد کی اور پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- کرناٹک: Karnataka Mob Lynching Case
میسور میں احتجاج کور کرنے پہنچے اردو صحافی پر شرپسند ہندوتوا کارکنان نے پولیس کی موجودگی میں حملہ کردیا اور ان کی جم کر پٹائی کردی۔
کرناٹک کے میسور شہر میں سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کے تحت غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے مذہبی مقامات کو انتظامیہ کی جانب سے ڈھایا جارہا تھا۔
اس کارروائی کے خلاف مقامی ہندوتوا تنظیم احتجاج کر رہی تھی اور اس دوران اردو صحافی محمد صفدر قیصر جو کہ مذکورہ معاملے کو کور کرنے پہنچے تھے ان پر چند شرپسند ہندوتوا کارکنان نے پولیس کی موجودگی میں حملہ کردیا اور ان کی شدید پٹائی کردی۔
اس سلسلے میں صفدر قیصر نے بتایا تھا کہ ان پر ہندوتوا کے کارکنانوں کا حملہ مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ موقع پر موجود پولیس نے قیصر صفدر کو حملہ آور ہندوتوا کارکنوں سے بچایا اور انہیں قریبی کسی اور مقام پر پہنچایا۔
اس معاملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے میسور جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے پولیس کمشنر سے خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کی تھی اور صحافی صفدر قیصر کی شکایت پر پولیس کارروائی میں 3 ہندوتوا وادیوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔
ہندوتوا شرپسندوں کی جانب سے اردو صحافی پر ہوئے اس حملہ کے متعلق کہا جارہا تھا کہ یہ ماب لنچنگ ہی کا ایک واقعہ ہے اگر پولیس بروقت نہ بچاتی تو صفدر قیصر کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا۔
- جموں و کشمیر: Jammu and Kashmir Mob Lynching Case
جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے مراد پورہ گاؤں میں نامعلوم افراد نے ایک 20 سالہ نوجوان پر حملہ کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ضلع راجوری میں تھنہ منڈی کے مراد پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان مبینہ طور ہجومی تشدد کا شکار ہوا۔
لواحقین کے مطابق اعجاز احمد ڈار نامی 20 سالہ نوجوان ایک گاڑی میں بھینس اور کٹرا لے کر گھر کی جانب جارہا تھا تب ہی راستے میں مبینہ طور گئو رکشکوں نے اس پر حملہ کرکے اسے شدید زخمی کر دیا۔
اعجاز احمد کو فوری طور جموں کے میڈیکل کالج ہسپتال پہنچایا گیا تاہم اسکی راستے میں ہی موت واقع ہوگئی تھی۔