جدید دور میں ماحولیات کی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آلودگی میں اضافے اور درجہ حرارت میں اضافے کے سبب سانس لینے میں پریشانی سے لیکر تمام طرح کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آلودگی کے سبب انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور و پرندوں کے لیے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے جانور معدوم ہو رہے ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے خاطر ہر برس پانچ جون کو عالمی یوم ماحولیات منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم ماحولیات کے منانے کا مقصد ماحولیات کے تئیں بیداری پیدا کرنا اور تحفظ فراہم کرنا ہے۔
عالمی یومِ ماحولیات کو منانے کا اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے سنہ 1972 میں کیا گیا تھا۔ عالمی یومِ ماحولیات کی شروعات سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم سے ہوئی تھی۔ اس تقریب میں اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی حصہ لیا تھا۔ غورطلب ہے کہ رواں برس کا عالمی یومِ ماحولیات منانے کی تھیم کا عنوان 'ماحولیاتی نظاموں کی بحالی' ecosystem restoration ہے۔ رواں برس پاکستان عالمی یومِ ماحولیات کی میزبانی کرے گا۔انسانیت کا وجود قدرت ہی پر منحصر ہے اور اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے انسانی زندگی میں پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ماحولیات کے تئیں بیداری اور اس کے فوائد کے بارے میں بیداری ضروری ہے، جس سے انسانی زندگی خطرہ میں نہیں پڑے۔ غور طلب ہے کہ کیمیائی کھاد اور کیڑے مار دوا کے بیش بہا استعمال کی وجہ سے ملک میں کاشت کی جانے والی 32 فیصد اراضی بے جان ہوچکی ہے۔
بہت ساری کوششوں کے بعد بھی 2015 اور 2020 میں ہر سال 10 ملین ہیکٹر جنگلات کی کٹائی کی گئی ۔ صرف بھارت میں ہی سال 2018.19 میں 30 لاکھ 36 ہزار 642 درخت کاٹے گئے تھے۔دارالحکومت دہلی میں سال 2008 اور 2018 کے درمیان 77 ہزار 617 درخت کاٹے گئے۔درختوں کو کاٹنے کی وجہ سے دہلی این سی آر دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ فضائی آلودہ شہر ہے۔ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے۔ اترپردیش میں بھی، ماحولیاتی عدم توازن کی وجہ سے بنجر زمین میں اضافہ ہو رہا ہے اور زرخیز زمین مسلسل کم ہورہی ہے۔ ریاست کی 80 لاکھ ہیکٹر اراضی آلودہ ہوچکی ہے۔ماہر ماحولیات انجینئر بھرت راج سنگھ نے بتایا کہ 1966۔67 میں شروع ہوئے گرین ریولوشن میں کیمیائی کھاد کے استعمال پر زور دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
world environment day: عالمی یومِ ماحولیات کا مقصد
آج بھی پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش سمیت ملک کے کسان یوریا، ڈی اے پی اور کیڑے مار دوا بہت استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب یہ زمین بنجر ہوتی جارہی ہے۔ کیمیائی کھاد کے استعمال کی وجہ سے مٹی کی سرزمین کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ ایسی زمین میں اگنے والے پھل، سبزیاں اور اناج بھی صحت کو خاص فائدے نہیں دے رہے ہیں۔
اترپردیش میں 1.8 کروڑ ہیکٹر قابل کاشت اراضی ہے، جو ملک کا 12 فیصد ہے۔ ریاست کی 80 لاکھ ہیکٹر اراضی آلودہ ہوگئی ہے۔ کیمیائی کھاد اور کیڑے مار دوائیوں کی وجہ سے آلودہ زرعی زمین کا حجم مستقل طور پر بڑھتا جارہا ہے۔ مٹی کی زرخیزی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اترپردیش کے محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق، سہارنپور سے بلیا تک انڈو۔ گنگٹوک بیلٹ میں کھیتوں کی مٹی میں نائٹروجن کے مواد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وہیں مشرقی اور مغربی اتر پردیش کے علاقوں میں پانچ سالوں میں فاسفیٹ جیسے غذائی اجزاء میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ مائکروونٹریٹینٹس میں زنک، کاپر، تانبا، آئرن اور میگزین بھی کھیتوں میں کم ہو رہے ہیں۔