اندرا شیکھر سنگھ
کینیڈا کی سرزمین پر مبینہ طور بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں خالصتان نواز سکھ علیحدگی پسند کے قتل پر ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی تناؤ کے درمیان، دونوں ممالک کے کسانوں اور سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ زراعت پراپنی توجہ دوبارہ مرکوز کریں۔ تعلقات کو فوری طور پر درست کرنے میں ناکامی ہندوستان کی غذائی معیشت پر نقصان دہ اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ اور میڈیا کے ذریعے اس واقعے کے لیے بھارتی حکومت پر انگلیاں اٹھائی ہیں، جس کے نتیجے میں ویزا معطلی اور دیگر سفارتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم اثرات شدت اختیار کر سکتے ہیں، جس میں ممکنہ طور پر محصولات، تجارتی پابندیاں اور سفارت کاروں کو واپس بلانا بھی شامل ہے۔ لیکن اس کا زراعت سے کیا تعلق ہے؟
روس - یوکرین تنازعہ کے آغاز کے بعد سے کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، حال ہی میں ڈای امونیم فاسفیٹ یا ڈی اے پی کھادوں کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہی حال پوٹاش کھادوں کا بھی ہے۔ تو کینیڈا بھارت کے سفارتی تعلقات کا تعلق یہیں سے زراعت کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ کینیڈا کے پاس دنیا کے سب سے بڑے پوٹاش کے ذخائر ہیں جو صنعتی زراعت کیلئے اہم ترین معدنیاتی جز ہیں۔ کینیڈا کے پاس دنیا کی مجموعی پوٹاش کا تیس فیصد ذخیرہ ہے اور سب سے بڑے پوٹاش پروڈیوسر کی حیثیت سے گزشتہ سال ایم او پی کا بنیادی فراہم کنندہ ملک تھا۔
اب تنازعہ کی وجہ سے روسی کھاد کی سپلائی محدود ہے، جس سے ہندوستان کے پاس پوٹاش کے محدود ذرائع رہ گئے ہیں۔ چین اور کینیڈا - جو دونوں پوٹاش پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں - بھارت کی زرعی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں، کینیڈا بھارت سے مراعات مانگ کر اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، ممکنہ طور پر بھارت کو کینیڈین پوٹاش کی برآمدات پر مکمل پابندی عائد کرنے پر زور دے گا۔ اس طرح کے اقدام سے ہندوستان کی غذائی تحفظ اور فصلوں پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے۔
کھاد کے اس خطرے کو تسلیم کرتے ہوئے ہندوستانی پالیسی سازوں نے کینیڈا سے پوٹاش کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔ جب تک ہندوستان روس اور بیلاروس سے ترسیل میں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا، ہمیں اہم زرعی درآمدات کی ممکنہ قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے ربیع کی بوائی اور گندم کی فصلوں پر نمایاں اثر پڑے گا۔ کینیڈا تاریخی طور پر پوٹاش کا ایک قابل اعتماد ذریعہ رہا ہے۔
اب کھادوں سے خوراک کی طرف رخ کرتے ہیں۔ کینیڈا طویل عرصے سے ہندوستان کو قیمتی زرعی اجناس کا ایک اہم سپلائر رہا ہے جن میں دال، تیل کے بیج، کینولا تیل اور فیڈ آئل کیک وغیرہ شامل ہیں۔ خاص طور پر مسور کی دال کو لیجئے، ہندوستان کو کینیڈین برآمدات کا 95 فیصد حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں، کینیڈا دال کی قیمتوں کو مستحکم کرتے ہوئے سرخ دال کا ہندوستان کا سب سے بڑا سپلائر رہا ہے۔ چنے، جو کہ پروٹین کا ایک اور بڑا ذریعہ ہے جسکی سپلائی انتہائی محدود ہے، کیلئے بھی کینیڈا ہندوستان کو سفید/پیلے مٹر کا ایک اہم سپلائر بنتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کینیڈا ایک اعلیٰ سپلائر کے طور پر دوبارہ ابھرا ہے۔
ہندی میں پڑھیں: क्या भारत- कनाडा विवाद का असर खेती और कृषि उत्पादों पर भी पड़ेगा
ہندوستانی زراعت کو درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، خاص طور پر دال اور تیل کے بیجوں کی پیداوار میں کمی، گھریلو پیداوار پہلے ہی تناؤ کا شکار ہے۔ آگے کی غیر یقینی فصلوں کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کو اپنے پروٹین اور تیل کے بیجوں کی فراہمی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ایسی صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان زرعی تجارت کے لیے بیک چینل کو برقرار رکھنا کافی اہم بن جاتا ہے۔
کینیڈا کو برآمدات کے حوالے سے بین الاقوامی تجارت پر اقوام متحدہ کے کام ٹریڈ ڈیٹا بیس کے مطابق بھارت نے 2022 میں کم و بیش سوا چار بلین امریکی ڈالرز کے درآمدات کئے۔ باہمی عالمی تجارت کا یہ جزو بھی متاثر ہو سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کو نقصان ہوگا۔ بہرحال اگر سفارتی کوششیں کامیاب نہیں ہوتی ہیں تو ہندوستان - کینیڈا تعلقات سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کو ہماری زراعت اور خوراک کی حفاظت پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ زراعت کو نظر انداز کرنے سے نہ صرف دونوں حکومتوں کو بلکہ ان کے متعلقہ ممالک کے کسانوں اور صارفین کو بھی نقصان پہنچے گا۔
(مضمون نگار سابق پروگرام ڈائریکٹر برائے پالیسی اور آؤٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا (این ایس اے آئی) ہیں)