ETV Bharat / bharat

Baloch Exiled PM in India ہم آزاد بلوچستان کے لیے اقوام متحدہ میں بھارتی حمایت کے منتظر ہیں: نائلہ قادری

بلوچستان کی جلاوطن وزیراعظم نائلہ قادری ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے نیشنل بیورو چیف راکیش ترپاٹھی کے ساتھ خصوصی بات چیت میں انھوں نے بھارت کو اپنا سب سے بڑا خیر خواہ اور دوست کہا ہے، ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم ایک آزاد بلوچستان کے لیے اقوام متحدہ میں بھارت کی حمایت کی منتظر ہیں۔

Etv Bharat
بلوچستان کی جلاوطن وزیراعظم نائلہ قادری کے ساتھ خصوصی بات چیت
author img

By

Published : Aug 2, 2023, 11:01 PM IST

بلوچستان کی جلاوطن وزیراعظم نائلہ قادری کے ساتھ خصوصی بات چیت

حیدرآباد ڈیسک: بلوچستان کی جلاوطن وزیر اعظم نائلہ قادری بلوچ اس وقت اپنے ملک کو پاکستان کے قبضے سے آزاد کرانے اور اسے ایک آزاد ملک بنانے کے لیے حمایت اکٹھا کرنے کے لیے پوری دنیا کا سفر کر رہی ہیں۔گزشتہ منگل کو وہ ای ٹی وی بھارت کے دہلی دفتر میں تھیں جہاں پر ہمارے نیشنل بیورو چیف راکیش ترپاٹھی نے ان سے بلوچستان کے متعلق خصوصی بات چیت کی۔

سوال: آپ ایک سال بعد بھارت آئی ہیں، آپ کو بھارت سے کیا امیدیں ہیں؟

نائلہ قادری: ہمیں بھارت کے لوگوں سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ بلوچستان جل رہا ہے، وہاں نسل کشی ہو رہی ہے۔ اب ہم اس آگ کو بجھانے کے لیے بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم دوسرے ممالک سے بھی بات کر رہے ہیں۔ ہم ابھی یورپ کے سات ممالک کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ ہم وہاں لوگوں سے ملاقات کی جن میں بہت سے یورپی پارلیمنٹیرینز، حکمت عملی ساز بھی شامل ہیں اور اقوام متحدہ بھی گئے اور وہاں اپنی پریزنٹیشن دی۔یہ سب کرتے کرتے جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں بھارت یاد آتا ہے۔

اب میں بلوچستان نہیں جا سکتی اس لیے بھارت آنے سے بلوچستان کی بو آتی ہے، بھارت میں ایسے لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد نے آزادی کی جنگ لڑی تھی وہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ بھارت آکر جب میں ان سے ملاقات کرتی ہوں تو مجھے ایک نئی توانائی ملتی ہے، جتنی محبت اور عزت یہاں ملتی ہے، وہ دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

سوال: کوئی امید ہے یا نہیں؟

نائلہ قادی: بھارت کے لوگوں سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ تم بار بار بھارت جاتی ہو لیکن آج تک بھارت کی حکومت نے بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کو میرا جواب یہ ہے کہ ایک حکومت ہند اور ایک ملک بھارت ہے اور ہم بھارت جاتے ہیں۔ جس دن ہم پاکستان سے یہ جنگ ہار گئے اس کے بعد غزوہ ہند بھارت کی طرف آئے گی۔ہمیں مار کر وہ ہمارے قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گے اور پھر تمہیں مار کر وہ یہاں بھی پہنچ جائیں گے۔

سوال: آپ کو شکایت رہی ہے کہ آپ کو اپنی لڑائی کے لیے بھارت سے مدد نہیں ملتی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت بلوچوں کی مدد کرتا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتی ہیں؟

نائلہ قادری: یہ دیکھ کر کافی دُکھ ہوتا ہے کہ ایک تو ہم بغیر کسی مدد کے اپنی جنگ تنے تنہا لڑ رہے ہیں، اس کے باوجود ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا کریڈٹ بھارت کو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بھارت تم پر ڈالروں کی بارش کر رہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ڈالر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز پر ہمارے لیے کھڑا ہو۔

سوال: آپ کی طرف سے بلوچستان کی آزادی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں، کیا آپ ایک اور بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ ہوتے دیکھ رہی ہیں؟

نائلہ قادری: بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا، ہم پاکستان کا حصہ نہیں تھے۔ بنگلہ دیش اور ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہمارے یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ہندو بلوچ بھی اسی عزت و احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔بلوچستان ایک آزاد ملک تھا اور ہم اپنی آزادی واپس لیں گے۔ سو سال لگیں گے یا ایک ہزار سال، بلوچوں کو وطن واپس ملے گا، ہم نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہم کسی کی غلامی میں نہیں رہ سکتے۔

سوال: کیا آپ نہیں سمجھتی کہ چین کے منصوبے سی پیک کے آنے سے آپ کی آزادی میں روکاوٹ ہے؟

نائلہ قادری: سی پیک یا بی آر آئی کو کہیں بھی کامیابی نہیں مل رہی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سے یہ لوگ گوادر کے علاقے میں پاکستانی فوج لے کر ہمیں مارنے کے لیے آئے، لوگوں کے گھر مسمار کیے، جس کو چاہا اغوا کیا، لاشیں پھینک دیں، اس طرح وہ منصوبہ روز اول سے ہی پاکستان کے خلاف تھا۔ انسانی حقوق کی پامالی رفتہ رفتہ نسل کشی میں بدل گئی۔

سوال: یہ جدوجہد جاری رکھنے کے لیے آپ کو کہاں سے مدد مل رہی ہے؟

نائلہ قادری: اگر مدد ملتی تو وہ ہم پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ 74 سال لگ چکے ہیں، صرف اس لیے کہ ہم اکیلے لڑ رہے ہیں۔ اگر ہماری مدد کی گئی تو بلوچ انہیں دو دن میں بلوچستان سے نکال دیں گے۔

سوال: آپ کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے بھارت نے کہاں غلطی کی؟

نائلہ قادری: اگر آپ مثالیں گننا شروع کریں تو بہت ساری ہیں۔ 1947 میں جب جناح نے پیغامات بھیجنا شروع کیے کہ بلوچستان کو پاکستان میں ضم کر دیا جائے تو بلوچ رہنما بھارت گئے اور آپ کے وزیر اعظم سے ملاقات کی لیکن نہرو نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگلے ہی مہینے پاکستان نے ہم پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد جب 1971 کی پاک بھارت جنگ ہو رہی تھی تو ہمارے لیڈر نواب اکبر خان بگٹی نے شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی۔لیکن آپ کے اس وقت کے وزیر اعظم نے مدد سے انکار کیا۔

سوال: 2016 میں مودی نے لال قلعہ سے بلوچستان پر بات کی تھی، لیکن اس کے بعد یہ مسئلہ پھر غائب ہوگیا۔

نائلہ قادری: لال قلعہ سے بلوچستان کا ذکر آنے کے بعد بلوچوں کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ تاہم اس کے فوراً بعد پاک افواج نے قلات جا کر کالی کے مندر کو تباہ کر دیا۔ اور بلوچوں پر ظلم میں اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے بلوچوں کو یہ کہہ کہہ کر مارا کہ بلاؤ مودی کو کہ آئے وہ تمہیں بچانے۔

سوال: کیا آپ نے کبھی سنگھ کے لیڈروں سے مدد طلب کی ہے؟

نائلہ قادری: ہم نے اپنی بات سب کے سامنے رکھ دی ہے۔ لیکن لوگ سوچتے ہیں کہ بنگلہ دیش بنا کر ہمیں کیا ملا… وہاں بھی ہندو مارے جا رہے ہیں… یا پھر بلوچستان اور سندھ آزاد ہو گئے تو مسلمان ملک ایک کے بجائے چار ہو جائیں گے اور ہم وہاں بھی مارے جائیں گے۔ اس طرح کی سوچ ہے جو حقیقی بھی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش دنیا کے ہر مسئلے پر بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

بلوچستان کی جلاوطن وزیراعظم نائلہ قادری کے ساتھ خصوصی بات چیت

حیدرآباد ڈیسک: بلوچستان کی جلاوطن وزیر اعظم نائلہ قادری بلوچ اس وقت اپنے ملک کو پاکستان کے قبضے سے آزاد کرانے اور اسے ایک آزاد ملک بنانے کے لیے حمایت اکٹھا کرنے کے لیے پوری دنیا کا سفر کر رہی ہیں۔گزشتہ منگل کو وہ ای ٹی وی بھارت کے دہلی دفتر میں تھیں جہاں پر ہمارے نیشنل بیورو چیف راکیش ترپاٹھی نے ان سے بلوچستان کے متعلق خصوصی بات چیت کی۔

سوال: آپ ایک سال بعد بھارت آئی ہیں، آپ کو بھارت سے کیا امیدیں ہیں؟

نائلہ قادری: ہمیں بھارت کے لوگوں سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ بلوچستان جل رہا ہے، وہاں نسل کشی ہو رہی ہے۔ اب ہم اس آگ کو بجھانے کے لیے بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم دوسرے ممالک سے بھی بات کر رہے ہیں۔ ہم ابھی یورپ کے سات ممالک کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ ہم وہاں لوگوں سے ملاقات کی جن میں بہت سے یورپی پارلیمنٹیرینز، حکمت عملی ساز بھی شامل ہیں اور اقوام متحدہ بھی گئے اور وہاں اپنی پریزنٹیشن دی۔یہ سب کرتے کرتے جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں بھارت یاد آتا ہے۔

اب میں بلوچستان نہیں جا سکتی اس لیے بھارت آنے سے بلوچستان کی بو آتی ہے، بھارت میں ایسے لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد نے آزادی کی جنگ لڑی تھی وہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ بھارت آکر جب میں ان سے ملاقات کرتی ہوں تو مجھے ایک نئی توانائی ملتی ہے، جتنی محبت اور عزت یہاں ملتی ہے، وہ دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

سوال: کوئی امید ہے یا نہیں؟

نائلہ قادی: بھارت کے لوگوں سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ تم بار بار بھارت جاتی ہو لیکن آج تک بھارت کی حکومت نے بلوچوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کو میرا جواب یہ ہے کہ ایک حکومت ہند اور ایک ملک بھارت ہے اور ہم بھارت جاتے ہیں۔ جس دن ہم پاکستان سے یہ جنگ ہار گئے اس کے بعد غزوہ ہند بھارت کی طرف آئے گی۔ہمیں مار کر وہ ہمارے قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گے اور پھر تمہیں مار کر وہ یہاں بھی پہنچ جائیں گے۔

سوال: آپ کو شکایت رہی ہے کہ آپ کو اپنی لڑائی کے لیے بھارت سے مدد نہیں ملتی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت بلوچوں کی مدد کرتا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتی ہیں؟

نائلہ قادری: یہ دیکھ کر کافی دُکھ ہوتا ہے کہ ایک تو ہم بغیر کسی مدد کے اپنی جنگ تنے تنہا لڑ رہے ہیں، اس کے باوجود ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کا کریڈٹ بھارت کو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بھارت تم پر ڈالروں کی بارش کر رہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ڈالر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز پر ہمارے لیے کھڑا ہو۔

سوال: آپ کی طرف سے بلوچستان کی آزادی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں، کیا آپ ایک اور بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ ہوتے دیکھ رہی ہیں؟

نائلہ قادری: بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا، ہم پاکستان کا حصہ نہیں تھے۔ بنگلہ دیش اور ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ہمارے یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن ہندو بلوچ بھی اسی عزت و احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔بلوچستان ایک آزاد ملک تھا اور ہم اپنی آزادی واپس لیں گے۔ سو سال لگیں گے یا ایک ہزار سال، بلوچوں کو وطن واپس ملے گا، ہم نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہم کسی کی غلامی میں نہیں رہ سکتے۔

سوال: کیا آپ نہیں سمجھتی کہ چین کے منصوبے سی پیک کے آنے سے آپ کی آزادی میں روکاوٹ ہے؟

نائلہ قادری: سی پیک یا بی آر آئی کو کہیں بھی کامیابی نہیں مل رہی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سے یہ لوگ گوادر کے علاقے میں پاکستانی فوج لے کر ہمیں مارنے کے لیے آئے، لوگوں کے گھر مسمار کیے، جس کو چاہا اغوا کیا، لاشیں پھینک دیں، اس طرح وہ منصوبہ روز اول سے ہی پاکستان کے خلاف تھا۔ انسانی حقوق کی پامالی رفتہ رفتہ نسل کشی میں بدل گئی۔

سوال: یہ جدوجہد جاری رکھنے کے لیے آپ کو کہاں سے مدد مل رہی ہے؟

نائلہ قادری: اگر مدد ملتی تو وہ ہم پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ 74 سال لگ چکے ہیں، صرف اس لیے کہ ہم اکیلے لڑ رہے ہیں۔ اگر ہماری مدد کی گئی تو بلوچ انہیں دو دن میں بلوچستان سے نکال دیں گے۔

سوال: آپ کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے بھارت نے کہاں غلطی کی؟

نائلہ قادری: اگر آپ مثالیں گننا شروع کریں تو بہت ساری ہیں۔ 1947 میں جب جناح نے پیغامات بھیجنا شروع کیے کہ بلوچستان کو پاکستان میں ضم کر دیا جائے تو بلوچ رہنما بھارت گئے اور آپ کے وزیر اعظم سے ملاقات کی لیکن نہرو نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگلے ہی مہینے پاکستان نے ہم پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد جب 1971 کی پاک بھارت جنگ ہو رہی تھی تو ہمارے لیڈر نواب اکبر خان بگٹی نے شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی۔لیکن آپ کے اس وقت کے وزیر اعظم نے مدد سے انکار کیا۔

سوال: 2016 میں مودی نے لال قلعہ سے بلوچستان پر بات کی تھی، لیکن اس کے بعد یہ مسئلہ پھر غائب ہوگیا۔

نائلہ قادری: لال قلعہ سے بلوچستان کا ذکر آنے کے بعد بلوچوں کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ تاہم اس کے فوراً بعد پاک افواج نے قلات جا کر کالی کے مندر کو تباہ کر دیا۔ اور بلوچوں پر ظلم میں اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے بلوچوں کو یہ کہہ کہہ کر مارا کہ بلاؤ مودی کو کہ آئے وہ تمہیں بچانے۔

سوال: کیا آپ نے کبھی سنگھ کے لیڈروں سے مدد طلب کی ہے؟

نائلہ قادری: ہم نے اپنی بات سب کے سامنے رکھ دی ہے۔ لیکن لوگ سوچتے ہیں کہ بنگلہ دیش بنا کر ہمیں کیا ملا… وہاں بھی ہندو مارے جا رہے ہیں… یا پھر بلوچستان اور سندھ آزاد ہو گئے تو مسلمان ملک ایک کے بجائے چار ہو جائیں گے اور ہم وہاں بھی مارے جائیں گے۔ اس طرح کی سوچ ہے جو حقیقی بھی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش دنیا کے ہر مسئلے پر بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.