ETV Bharat / bharat

پنجاب میں خالصتان کے نعرے کی بازگشت

شمالی ریاست پنجاب میں حالیہ تشدد اور مظاہروں کے واقعات 1980 کی دہائی میں خالصتان تحریک کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے۔ امرت پال سنگھ کی وضع قطع سے لگ رہا ہے کہ وہ موجودہ دور کے بھندراں والے بن گئے ہیں لیکن کیا یہ صورتحال بی جے پی کے لئے فائدہ مند ہوگی، یہ تجزیہ کیا ہے ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بٹ نے۔

پنجاب میں خالصتان کے نعرے کی بازگشت
پنجاب میں خالصتان کے نعرے کی بازگشت
author img

By

Published : Feb 25, 2023, 8:23 PM IST

حیدرآباد: امرتسر کی گلیوں میں پریڈ کرتے ہوئے کرپانوں، تلواروں اور بندوقوں سے لیس مشتعل سکھ نوجوانوں نے 1980 کی دہائی کی یادیں تازہ کر دیں جب پنجاب کو ملیٹنسی نے زیر کردیا تھا۔ مشتعل مظاہرین نے تھانہ اجنالہ میں تعینات پولیس اہلکاروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں یہ وعدہ کرنے پر مجبور کیا کہ وہ لوپریت سنگھ عرف طوفان سنگھ کو رہا کردیں۔ اسی گرفتاری نے دراصل احتجاج کو جنم دیا۔ طوفان سنگھ اصل میں ایک 29 سالہ انجینئر امرت پال سنگھ کا ساتھی ہےجو اپنی شعلہ بیانی سے سکھوں کے لیے علیحدہ وطن یعنی خالصتان کے حق میں باتیں کرکے پنجاب کے نوجوانوں کو متاثر کرنے لگا ہے۔

امرت پال کے قریبی معاون طوفان کو ایک شخص کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھاجس کے خلاف فوری احتجاج شروع کیا گیا۔ انتظامیہ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات کیسے ہوں گے؟ امرتسر کے اجنالہ کی سڑکوں پر پولیس یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ امرت پال کی کال کی حمایت میں نوجوانوں کا سیلاب امڈ آیا اور ریاستی سیکورٹی کا نظام ٹوٹ گیا۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے خلاف پولیس نے سخت کارروائی کی لیکن آخر کار انہیں بے بس ہونا پڑا۔ پنجاب کے ڈی جی پی نے طوفان سنگھ کی رہائی کا اعلان اس بنیاد پر کیا کہ وہ اس جگہ پر موجود ہی نہیں تھا جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔ اسلئے اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس سربراہ کے طوفان سنگھ کی رہائی پر دئے گئے بیان پر لوگوں کے ذہنوں میں سنت جرنیل سنگھ بھندراں والا کی یاد تازہ ہوگئی۔ بھندراں والا کی رہائی کیلئے بھی ان کے ساتھیوں نے تشدد کا استعمال کیا تھا۔

اس تشدد کے نتیجے میں اسوقت کے حکام بالخصوص مرکزی حکومت پر دباؤ عائد ہوا جسکے بعد 1981 میں بھندراں والا کو ریا کردیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر اس وقت اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے کہا کہ ایک اخبار کے مالک کے قتل میں بھندراں والا چونکہ ذمہ دار نہیں تھا، اسلئے اسے رہا کردیا گیا۔ پنجاب میں خونریز واقعات کے دوران بھندراں والا کی رہائی کو ان عوامل میں سے ایک اہم کڑی کے طور دیکھا جاتا ہے جنہوں نے خالصتان کی حامی قوتوں کو حوصلہ دیا اور جو آگے چل کر آپریشن بلیو سٹار اور اس کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم کے قتل پر منتج ہوا۔ حیرت انگیز طور پر امرت پال سنگھ ، خالصتان کا نعرہ لگاتے ہوئے بھندراں والا کے الفاظ دہراتے ہیں، انکے جیسا ہی لباس پہن رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھنداں والے کے نظریات کی ہی ترویج کررہے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اسی کی دہائی میں سکھ انتہا پسندی کو نزدیک سے دیکھا ہے، پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کی اس نئی فصل کو ہلکے میں نہیں لے رہے ہیں۔

پنجاب کا نصاب پہلے سے لکھا ہوا ہے اور وہ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ سابق مواد سے ہی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس انداز سے طوفان سنگھ کی رہائی عمل میں آئی اور حکام نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ دوسری جانب امرت پال سنگھ نے اپنی بیان بازی ختم نہیں کی۔ ہفتے کے روز، انہوں نے ایک بار پھر پولیس کو دھمکی دی کہ اگر طوفان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تو اسکے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امرت پال سنگھ کو فی الحال آزاد رکھنا نہ صرف ریاست عام آدمی پارٹی بلکہ مرکزی حکومت کے بھی مفاد میں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو انکے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو ملک کے دیگر خطوں میں حکومت مخالف نظریات پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ امرت پال کی یہ سرگرمیاں ریاست کو پولرائز کریں گی جس سے یہ امکان ہے کہ ریاست کی ہندو آبادی متحد ہوجائے گی۔

اسی کی دہائی میں جو خالصتان تحریک سکھوں کیلئے لائی تھی، اسکا اعادہ ہوسکتا ہے۔ یہ تحریک اصل میں سکھوں کو تقسیم کرے گی۔ ریاست کی غالب آبادی سکھوں پر مشتمل ہے۔ میانہ رو اور سیکیولر سکھ غیر جانبدارانہ راستہ اختیار کریں گے جبکہ انتہا پسند سکھ امرت پال کے حمایتی بنیں گے ۔ایسی صورت میں تاہم ہندو، جو ریاست کی کل آبادی کا 40 فیصد ہیں، عام آدمی پارٹی یا کانگریس کی حمایت نہیں کریں گے، بلکہ وہ ہر حال میں بی جے پی کا ساتھ دیں گے۔

بی جے پی کو اس ریاست میں اپنا وجود منوانا ہے اور اپنے قدم جمانا ہے۔ اب جب کہ پارٹی کے پاس کپٹن امریندر سنگھ جیسے لیڈر ہیں، اسلئے پارٹی کو لگ رہا ہے کہ انکی موجودگی سے زمینی سطح پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریندر سنگھ نے اپنی زندگی پنچاب کے پرآشوب دور میں گزاری ہے۔ اسی کی دہائی میں وہ اصل میں اکالیوں کے خلاف اندرا گاندھی کی نمائندگی کرنے والے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک تھے۔ خالصتان کی حمایت میں ابھرنے والا نیا نقطۂ نظر اس وقت بی جے پی کو سب سے زیادہ راس آتا ہے۔ امرت پال کا عروج ہندو ووٹوں کو متحد کرے گا اور کپٹن امریندر انہیں بٹورنے کیلئے دستیاب ہوگا اور وہ سکھ ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اروند کیجریوال محض حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور احتیاط سے اس سے نمٹ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر صورتحال ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو یہ نہ صرف اقتدار ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گا بلکہ انہیں اپنا سیاسی دائرہ کار وسیع کرنے کا منصوبہ بھی متاثر ہوگا، جو قومی پارٹی بننے کے بعد انکی پارٹی کا مطمح نظر بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Gujarat Elections 2022 کانگریس، اویسی اور عآپ کی بندر بانٹ میں بی جے پی کی چاندی

دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا مرکز میں حکمراں پارٹی، جس کے پاس اجیت ڈوبھال جیسے شخص جو سیکیورٹی معاملات دیکھ رہے ہیں، خالصتان تحریک کے ازسر نو ابھرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ انتخابات میں ایک خاص پارٹی کو فائدہ حاصل ہو یا یہ ممکن ہے کہ اس سرطان کو سر ابھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے گا تاکہ یہ ریاستی عوام کیلئے مستقبل میں وبال جان نہ بن جائے۔

حیدرآباد: امرتسر کی گلیوں میں پریڈ کرتے ہوئے کرپانوں، تلواروں اور بندوقوں سے لیس مشتعل سکھ نوجوانوں نے 1980 کی دہائی کی یادیں تازہ کر دیں جب پنجاب کو ملیٹنسی نے زیر کردیا تھا۔ مشتعل مظاہرین نے تھانہ اجنالہ میں تعینات پولیس اہلکاروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں یہ وعدہ کرنے پر مجبور کیا کہ وہ لوپریت سنگھ عرف طوفان سنگھ کو رہا کردیں۔ اسی گرفتاری نے دراصل احتجاج کو جنم دیا۔ طوفان سنگھ اصل میں ایک 29 سالہ انجینئر امرت پال سنگھ کا ساتھی ہےجو اپنی شعلہ بیانی سے سکھوں کے لیے علیحدہ وطن یعنی خالصتان کے حق میں باتیں کرکے پنجاب کے نوجوانوں کو متاثر کرنے لگا ہے۔

امرت پال کے قریبی معاون طوفان کو ایک شخص کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھاجس کے خلاف فوری احتجاج شروع کیا گیا۔ انتظامیہ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات کیسے ہوں گے؟ امرتسر کے اجنالہ کی سڑکوں پر پولیس یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ امرت پال کی کال کی حمایت میں نوجوانوں کا سیلاب امڈ آیا اور ریاستی سیکورٹی کا نظام ٹوٹ گیا۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے خلاف پولیس نے سخت کارروائی کی لیکن آخر کار انہیں بے بس ہونا پڑا۔ پنجاب کے ڈی جی پی نے طوفان سنگھ کی رہائی کا اعلان اس بنیاد پر کیا کہ وہ اس جگہ پر موجود ہی نہیں تھا جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔ اسلئے اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس سربراہ کے طوفان سنگھ کی رہائی پر دئے گئے بیان پر لوگوں کے ذہنوں میں سنت جرنیل سنگھ بھندراں والا کی یاد تازہ ہوگئی۔ بھندراں والا کی رہائی کیلئے بھی ان کے ساتھیوں نے تشدد کا استعمال کیا تھا۔

اس تشدد کے نتیجے میں اسوقت کے حکام بالخصوص مرکزی حکومت پر دباؤ عائد ہوا جسکے بعد 1981 میں بھندراں والا کو ریا کردیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر اس وقت اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے کہا کہ ایک اخبار کے مالک کے قتل میں بھندراں والا چونکہ ذمہ دار نہیں تھا، اسلئے اسے رہا کردیا گیا۔ پنجاب میں خونریز واقعات کے دوران بھندراں والا کی رہائی کو ان عوامل میں سے ایک اہم کڑی کے طور دیکھا جاتا ہے جنہوں نے خالصتان کی حامی قوتوں کو حوصلہ دیا اور جو آگے چل کر آپریشن بلیو سٹار اور اس کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم کے قتل پر منتج ہوا۔ حیرت انگیز طور پر امرت پال سنگھ ، خالصتان کا نعرہ لگاتے ہوئے بھندراں والا کے الفاظ دہراتے ہیں، انکے جیسا ہی لباس پہن رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھنداں والے کے نظریات کی ہی ترویج کررہے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اسی کی دہائی میں سکھ انتہا پسندی کو نزدیک سے دیکھا ہے، پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کی اس نئی فصل کو ہلکے میں نہیں لے رہے ہیں۔

پنجاب کا نصاب پہلے سے لکھا ہوا ہے اور وہ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ سابق مواد سے ہی اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس انداز سے طوفان سنگھ کی رہائی عمل میں آئی اور حکام نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ دوسری جانب امرت پال سنگھ نے اپنی بیان بازی ختم نہیں کی۔ ہفتے کے روز، انہوں نے ایک بار پھر پولیس کو دھمکی دی کہ اگر طوفان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تو اسکے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امرت پال سنگھ کو فی الحال آزاد رکھنا نہ صرف ریاست عام آدمی پارٹی بلکہ مرکزی حکومت کے بھی مفاد میں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو انکے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو ملک کے دیگر خطوں میں حکومت مخالف نظریات پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ امرت پال کی یہ سرگرمیاں ریاست کو پولرائز کریں گی جس سے یہ امکان ہے کہ ریاست کی ہندو آبادی متحد ہوجائے گی۔

اسی کی دہائی میں جو خالصتان تحریک سکھوں کیلئے لائی تھی، اسکا اعادہ ہوسکتا ہے۔ یہ تحریک اصل میں سکھوں کو تقسیم کرے گی۔ ریاست کی غالب آبادی سکھوں پر مشتمل ہے۔ میانہ رو اور سیکیولر سکھ غیر جانبدارانہ راستہ اختیار کریں گے جبکہ انتہا پسند سکھ امرت پال کے حمایتی بنیں گے ۔ایسی صورت میں تاہم ہندو، جو ریاست کی کل آبادی کا 40 فیصد ہیں، عام آدمی پارٹی یا کانگریس کی حمایت نہیں کریں گے، بلکہ وہ ہر حال میں بی جے پی کا ساتھ دیں گے۔

بی جے پی کو اس ریاست میں اپنا وجود منوانا ہے اور اپنے قدم جمانا ہے۔ اب جب کہ پارٹی کے پاس کپٹن امریندر سنگھ جیسے لیڈر ہیں، اسلئے پارٹی کو لگ رہا ہے کہ انکی موجودگی سے زمینی سطح پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ امریندر سنگھ نے اپنی زندگی پنچاب کے پرآشوب دور میں گزاری ہے۔ اسی کی دہائی میں وہ اصل میں اکالیوں کے خلاف اندرا گاندھی کی نمائندگی کرنے والے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک تھے۔ خالصتان کی حمایت میں ابھرنے والا نیا نقطۂ نظر اس وقت بی جے پی کو سب سے زیادہ راس آتا ہے۔ امرت پال کا عروج ہندو ووٹوں کو متحد کرے گا اور کپٹن امریندر انہیں بٹورنے کیلئے دستیاب ہوگا اور وہ سکھ ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اروند کیجریوال محض حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور احتیاط سے اس سے نمٹ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر صورتحال ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو یہ نہ صرف اقتدار ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گا بلکہ انہیں اپنا سیاسی دائرہ کار وسیع کرنے کا منصوبہ بھی متاثر ہوگا، جو قومی پارٹی بننے کے بعد انکی پارٹی کا مطمح نظر بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Gujarat Elections 2022 کانگریس، اویسی اور عآپ کی بندر بانٹ میں بی جے پی کی چاندی

دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا مرکز میں حکمراں پارٹی، جس کے پاس اجیت ڈوبھال جیسے شخص جو سیکیورٹی معاملات دیکھ رہے ہیں، خالصتان تحریک کے ازسر نو ابھرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ انتخابات میں ایک خاص پارٹی کو فائدہ حاصل ہو یا یہ ممکن ہے کہ اس سرطان کو سر ابھرنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے گا تاکہ یہ ریاستی عوام کیلئے مستقبل میں وبال جان نہ بن جائے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.