کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ سے نوابی سلطنت تو رخصت ہوگئی لیکن ان کا خزانہ کہا ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں، اس خزانے کا راز کنواں ہے۔ لکھنؤ کی تاریخی عمارتوں میں آصفی امام باڑہ کے احاطہ میں تعمیر شاہی کنواں ہے اس کنویں کے تعلق سے عوام کے درمیان یہ کہانی مشہور ہے کہ کی 1856 میں جب انگریزوں نے آخری نواب واجد علی شاہ کو گرفتار کر کلکتہ لے کر چلے گئے اس دوران انگریزوں نے ان کے خزانے کی تلاشی شروع کی۔ Untold Mystery of Well
بتایا جاتا ہے کہ ان کی وفادار منیم خزانے کی چابی اور نقشہ لے کر کے شاہی باولی کنواں میں کود گئے تھے۔ انگریزوں نے خوب تلاش کیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔شاہی باولی کے حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا وجود لکھنؤ کے نوابوں کی دارالحکومت بننے کے سے قبل کا ہے۔ Untold Mystery of Well
لیکن تاریخ نویس روشن تقی کے مطابق 1784 میں جب نواب آصف الدولہ نے امام باڑہ کی تعمیر کروارہے تھے اس وقت اس کی بنیاد ڈالی گئی، اسے ست منزل بھی کہا جاتا تھا، باولی کا مرکزی گیٹ اونچا اور سادہ محراب سے بنا ہوا ہے۔ اندر خانے میں سیڑھی پانی میں اتر جاتی ہے اس کے بغل میں تین منزل کی محرابوں کی قطاریں ہیں۔
تقی بتاتے ہیں کہ یہ باولی گومتی ندی سے ملی ہوئی ہے۔ان کے مطابق آصف الدولہ جب امام باڑہ تعمیر کرا رہے تھے اسی دوران مہمانوں کے لیے ایک ٹھنڈا شاہی مہمان خانہ تعمیر کرانا چاہتے تھے کیونکہ باولی پانی کی وجہ سے گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی تھی لہذا انہوں نے اس سے متصل مہمان خانہ بھی تعمیر کروایا تھا۔ Untold Mystery of Well
سیاحوں کو یہاں کے گائیڈ ایک کہانی ضرور بتاتے ہیں کہ نوابوں کے خزانے اور اس کے کھن کھناہٹ کی اواز آنے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، یہ بھی کہتے ہیں کہ کئی بار سکوں کے دیگ دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خزانے کی چابی اور نقشہ یہاں پھینکے جانے کی کہانیاں تو عوام کے مابین مشہور ہیں لیکن تاریخ کے اوراق میں کہیں بھی درج نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فیض آباد سے لکھنؤ دارالحکومت بنانے کے دوران نواب مکمل خزانہ لکھنؤ لائے ہی نہیں تھے، خزانہ فیض آباد اور ایودھیا کے درمیان قبرستان میں دفن ہے۔ مورخوں کے مطابق انگریزوں نے جتنا خزانہ لوٹا تھا وہ تو محض ایک چوتھائی رہا ہوگا باقی خزانہ لکھنؤ اور فیض آباد میں دفن ہیں اور اس کا راز کنویں میں ہے۔
باولی اپنی قصے کہانیوں کی وجہ سے عوام کے درمیان اگرچہ معروف ہے تاہم حسین آباد ٹرسٹ کے عدم توجہی کی وجہ سے اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا وجود ختم ہو جائے گا۔