دراصل 14 نومبر سے 20 نومبر تک علامتی کلاس روم کے طور پر میزوں اور کرسیوں کی خالی قطاریں غیر استعمال شدہ اسکول بیگ کے ساتھ کھڑی کی گئی ہیں تاکہ ان چھوٹے بچوں کی حالت زار کی طرف فوری طور پر توجہ مبذول کرائی جاسکے، جو کووڈ 19 کی وجہ سے گذشتہ ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ تک اسکول نہیں جا سکے اور اس کے نتیجے میں تعلیم کو زبردست نقصان پہنچا۔
اس موقع پر پروفیسر وینیتا کول نے کہا کہ وبائی مرض کے نتیجے میں تعلیم کا جو بحران شروع ہوا وہ اسکولوں کی بندش کے ساتھ تیزی سے تدریسی بحران میں بدل گیا۔ اس سے نہ صرف تعلیم بلکہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ البتہ آن لائن تعلیم ہی واحد ذریعہ بنی جبکہ بہت سے بچے کنیکٹیوٹی مسائل کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
دنیا بھر میں ہر ساتواں نوجوان کسی نہ کسی ذہنی عارضہ کا شکار: یونیسیف
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر سکول کئی بار بند اور کھولے گئے، اس کے نتیجے میں لاکھوں بچے تقریباً ڈیڑھ برس تک اسکول نہیں جا سکے۔ اس مدت کے دوران تقریباً 15 لاکھ اسکول اور 14 لاکھ آنگن باڑی مراکز بند رہے۔
یونیسیف کی ماہر تعلیم ڈاکٹر سونیشا آہوجہ نے بتایا کہ اس علامتی وبائی کلاس روم میں ہر خالی میز اُن لاکھوں بچوں کے لئے وقف ہے، جنہوں نے تدریس کے چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہر وہ بچہ جو پڑھائی سے محروم رہتا ہے، اپنی نشوونما میں پیچھے رہ جاتا ہے اور بہت سے کبھی بھی واپس نہیں جا پاتے۔
یونیسیف کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 80 فیصد بچے اسکول جانے سے قاصر رہےہیں۔