شہیدانِ وطن کی یاد میں نہ صرف اترپردیش، بلکہ ملک بھر میں آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کے موقع پر تقریبات منعقد کیے گئے۔ اسی سلسلے میں بریلی میں بھی اُس بہادر روہیلہ سردار کو بھی یاد کیا جا رہا ہے، جس نے اپنے دم پر تحریک آزادی کے پہلے مرحلے میں بریلی کو انگریزوں کی گرفت سے آزاد کرا لیا تھا اور ضلع بریلی کو تقریباً گیارہ مہینے تک آزاد رکھا تھا۔
جن سیوا ٹیم نے ضلع جیل کی اراضی میں واقع روہیلہ نواب شہید خان بہادر خان کے مقبرے کے احاطے میں شجر کاری کی۔ جن سیوا ٹیم کے عہدے داران اور کارکنان نے پہلے احاطے اور صحن کی صفائی کی اور اس کے بعد گلاب، آم، امرود، شہتوت اور دیگر پھلوں کے پودے لگائے۔ آزادی کے پچھتّر برس مکمل ہونے کے موقع پر جن سیوا ٹیم نے خان بہادر خان کے مقبرے پر رضاکارانہ صفائی مہم بھی چلائی اور خراجِ عقیدت پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:'جنگ آزادی میں مجاہدین آزادی اور علماء کرام کا کردار ناقابل فراموش'
خان بہادر خاں کے وارث اپنے آبا و اجداد کے مقبرے پر حاضری دینے آتے ہیں۔ کبھی پیدل، کبھی سائیکل سے تو کبھی کسے سواری کی مدد کے ذریعے مقبرے تک پہنچتے ہیں اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے اجداد نے ملک کی آزادی میں اپنا تن، من اور دھن سب قربان کر دیا۔ آج اُن کے وارثین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
10/ مئی سنہ 1857ء کو میرٹھ سے، تحریک آزادی کے اعلان کی آواز کے ساتھ، اس کی اطلاع 14/ مئی کو بریلی پہنچی۔ یہاں خاموشی سے، برطانوی حکومت سے مقابلہ کرنے کے لیے خفیہ تیاری کی جا رہی تھی اور جب تیاریاں مکمل ہوئیں تو 31/ مئی سنہ 1857ء کو خان بہادر خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برطانوی حکومت کے سِوِل سرجینٹ، سٹی مجسٹریٹ، ضلع جیل کے جیلر اور بریلی کالج کے پرنسپل کو قتل کر دیا۔ ایک دن میں چار اعلیٰ افسران اور عہدے داران کے قتل سے خوفزدہ ہوکر برطانوی حکمران، بریلی چھوڑ کر نینی تال بھاگ گئے۔
نواب خان بہادر خان نے روہیل کھنڈ میں گیارہ ماہ تک حکومت کی۔ اس سے قبل، تقریبا 80 سال پہلے، سنہ 1774ء میں، خان بہادر خان کے دادا حافظ رحمت خان نے اسی سرزمین پر تقریبا 27 برس تک حکومت کی تھی اور اُنہوں نے ابتدائی دور میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے انگریزوں سے جنگ کی تھی۔